باجوہ ، فیض عدالتی نیٹ ورک

نوید چودھری

Jun 23, 2023 | 11:46:AM
باجوہ ، فیض عدالتی نیٹ ورک
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24urdu.com
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

کسی بھی طبقے یا شعبے کے لیے ہر طرح کے احتساب سے ماورا ہونے کا تصور ہی ہولناک ہے - جو جتنا صاحب اختیار ہو اسکا احتساب بھی اتنا ہی کڑا ہونا لازمی ہے ۔ کیعض صورتوں میں تو یہ عبرتناک ہونا چاہیے- یہ صرف عالمی ،  اخلاقی اور قانونی ہی نہیں اسلامی اصولوں کے بھی عین مطابق ہے - پاکستان کی تباہی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ بااختیار شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا اسی لیے انہیں اور ان کی اولادوں کو “ لائسنس ٹو کل “ ملا ہوا ہے - اس نسل کے ججوں کے مائینڈ سیٹ  کا اندازہ ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو  لیک سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے - جس میں وہ ایک کروڑ بیس لاکھ رشوت طلب کررہا ہے -

دوسری جانب موجود شخص اسے کہہ رہا ہے ایسی باتیں فون پر مت کرو ، ثاقب نثار کا بیٹا جواب دیتا ہے کہ “ مجھے کسی کی پروا نہیں “ ایک ریٹائر جج کے بیٹے کے دماغ میں اتنا خناس بھرا ہے تو تصور کریں ایسے حاضر سروس ججوں کے دماغ کس حد تک پست اور شیطانی ہونگے - لیکن اس کا حل بھی بہت سادہ ہے ریاست فیصلہ کرکے کسی ایک کو اسکے جرائم کے مطابق سزا یقینی بنا دے - باقی سب “ بندے دے پتر “ بن کر لائن بنا کر کھڑے ہو جائیں گے - فوجی عدالتوں کے خلاف نو رکنی بینچ میں اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور سنئیر غیر جانبدار جج جسٹس سردار طارق مسعود کو شامل کرنا خالصتا شرارت تھی - جو ان دونوں معزز ججوں نے قانون کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ناکام بنا دی -شرارتوں پر تلے عناصر باز نہیں آرہے تو اسکی واحد وجہ یہی ہے انہیں اب تو کیا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی احتساب کا خوف نہیں - احتساب نہ کیے جانے کے اس   “ مکروہ رواج “ ختم کرکے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ورنہ ملک کھائی کی جانب بڑھتا رہے گا- پراجیکٹ  نیا پاکستان کے معمار ججوں نے فروری 2022 سے آج تک سر سے لے کر پاؤں تک پورا زور لگایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کو ختم کردیا جائے مگر ناکام رہے - لیکن اس  گھڑ مس کے باعث پاکستان آج تک غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے - معاشی بحران سے باہر نکلنے کی کوششیں طویل ہوتی جارہی ہے -

ضرور پڑھیں :جنرل عاصم منیر کی عمران خان سے ملاقات کا احوال

بات بات پر سوو موٹو نوٹس لینے اور پراکسی پٹیشنر کھڑے کرکے اپنی مرضی کی درخواستوں پر پہلے سے طے کردہ فیصلے کرنے والی  عدلیہ نے پی ٹی آئی کو صرف ریلیف دینے کے تمام ریکارڈ نہیں توڑے بلکہ ایسا تحفظ بھی فراہم کیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیل کو ناکام بنانے کی کوشش  کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی جاسکی - حتی کہ 9 مئی کے واقعات میں بھی عدالتی سہولت کاری کا معاملہ سامنے آگیا - اب جس طرح سے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والے پی ٹی آئی کے حامی دو وکلا اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ سے چیف جسٹس بندیال نے ملاقات کرکے کیس لگانے کا حکم دیا ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے ہوگیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 9 مئی کی منصوبہ بندی میں شامل عدالتی کرداروں کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں کہ وہ اپنے کیے کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ریاست سے ٹکرا  جائیں اور اسے آئین و  قانون کے تحفظ کی جنگ قرار دیں ۔ کامیابی کا انہیں بھی یقین نہیں مقصد صرف ملکی سٹیک ہولڈروں کو الجھائے رکھنا ہے۔ بات صرف ہم خیال بینچ کے عدالتی فیصلوں تک محدود نہیں رہے گی - کہیں یہ منصوبہ بندی بھی ہورہی ہے کہ عید کے بعد اسی طرح کی  بڑی وکلا تحریک چلائی جائے گی جیسی جنرل مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے چلائی گئی تھی - جو عناصر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح کی کوئی تحریک ان دنوں  پھر چل سکتی ہے تو زمینی حقائق سے یکسر لاعلم ہیں - چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی دو نمبر شخصیت کی طرح ان کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک بھی ایک بہت گہرا دھوکہ تھی - بہر حال وہ اس لیے زور دار اور کامیاب رہی کہ اسے نہ صرف ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت تقریباً ہر شعبے سے تعلق  رکھنے والے افراد کی عملی حمایت حاصل تھی - سب سے بڑھ کر یہ کہ جنرل مشرف اپنے اقتدار کے بدترین دور کے  باعث بند گلی میں آچُکے تھے -

یہ بھی پڑھیں:قاضی فائز عیسیٰ، عمرانی تابوت کا آخری کیل 

ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی جنرل مشرف کو بوجھ سمجھ کر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی  - اب ایسا کچھ نہیں - پی ٹی آئی کے حامی وکلا ہیں اور سی پیک کی مخالف عالمی لابیاں ، ایسے میں کوئی وکلا تحریک چلی تو ممکن ہے سرمائے کی بہتات ہو مگر موثر ثابت نہیں ہوسکتی - پی ٹی آئی کے سرپرستوں نے یہ تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے کہ اگر لوکل اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ ہو تو عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک حد سے آگے نہیں جاسکتی - خطے کا ماحول بھی بڑی حد تک تبدیل ہوچکا - سعودی عرب اور ایران کی دوستی کراکے چین نے بازی پلٹ دی ہے - امریکہ نے قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کرکے اپنے انخلا کا راستہ نکالا ہے - اب افغانستان کی طالبان حکومت بھی اپنی معیشت کی بہتری کے لیے سفارتکاری کے میدان میں چین کے ساتھ آن بورڈ ہے - بھارت کی سفاتکاری یہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات روس کی قیمت پر نہیں ہوسکتے اور چین سے اس کی تجارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہونا ہے - اس منظر نامے سے واضح ہے کہ اب اس علاقے میں امریکہ کے پاس بہت زیادہ گنجائش نہیں - امریکہ ، اسرائیل اور مغرب کی  لابیاں اور صیہونی گروپ دوسرے طریقے سے متحرک ہیں -اس کی ایک واضح مثال آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ انتہائی غلط اور قابل مذمت  رویہ ہے - یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے اور چین بھی ، اسی لیے اب حکومت پاکستان نے پلان بی پر بھی کام شروع کردیا ہے -غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کےلیے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل قائم کردی گئی- یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ پچھلے کچھ عرصے سے امریکی حکومت بھی پاکستان کے معاملات پر تبصرہ کرنے کے حوالے سے بہت محتاط ہوچکی ہے - امریکی دفتر خارجہ نے پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دینے اور خطوط لکھنے والے  ارکان کانگرس کے عمل کو ان کا ذاتی فعل قرار دیتے ہوئے سیاست سمیت پاکستان کے اندرونی معاملات پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے ہی انکار کردیا ہے -

اگرچہ سپریم کورٹ میں موجود سازشی عناصر اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہے لیکن ان کی اوقات اتنی ہی رہ گئی ہے کہ اب ہر طرف سے دھتکارے جارہے ہیں ، 9 مئی کے واقعات کے بعد آخری بڑا وار عمران خان کو رہا کرکے کیا گیا تھا - اس کے ساتھ یہ بھی طے کیا گیا کہ توہین عدالت کیس میں حکومت کو فارغ کرنے کا حکم جاری کردیا جائے - پلان تو بن گیا مگر جیسے ہی مولانا فضل الرحمن نے ایک دن کے نوٹس پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی اجتماع کی کال دی ، اسلام آباد میں سروں کا سمندر امڈ آیا تو بندیال کورٹ ساری بہادری بھول گئی اور اکڑ نکل گئی - یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس روز سٹیج پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دو سابق صدور سمیت کئی وکلا رھنما موجود تھے ۔ پیپلز پارٹی نمائندگی ہی پیپلز لائرز فورم کے سربراہ نئیر بخاری ایڈووکیٹ نے کی - موجودہ عدالتی نظام  نے ریاست کو پورا پورا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اس جعلی بھرم کو توڑ دے کہ آئین و قانون توڑنے اور کرپشن کرنے پر ججوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں سزائیں نہیں دی جا سکتیں - کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ  آئین ری رائٹ کرکے آئین شکنی کی گئی  ، بینچ فکسنگ بدترین بدعنوانی ہے ، اپنے ہی خلاف مقدمات خود سن کر عدالتی اصولوں اور اخلاقیات کا جائزہ نکال دیا گیا ، ایک پارٹی کے حق میں فیصلے دے کر انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ہوں یا جسٹس محسن کیانی جس کے خلاف بھی مالی ہیر پھیر  کا ریفرنس آئے اسے دبا کر کرپشن کو کھلم کھلا فروغ دیا جارہا ہے - یہ تاثر پختہ ہورہا ہے  کہ ہم خیال آئین کی پرواہ کررہے ہیں نہ قانون کی ، اخلاقیات کی نہ ہی عدالتی قواعد و ضوابط کی ، کرپشن کوئی مسئلہ ہے نہ ہی بینچ فکسنگ تو پھر ریاست کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایک ادارے موجود با اختیار  افراد فریق بن کر بے لگام  ہورہے ہیں تو انہیں  قابو کرنے کے لیے غیر ضروری مصلحتیں اور آئین و قانون کے نام پر رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کب تک کیا جاسکتا ہے -

یہ بھی پڑھیں:چور بھی کہے چور چور

ان عناصر کو آئینی عہدوں پر بیٹھ کر ملک میں افراتفری مچانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی -  سوال تو یہ ہے جرائم کرنے پر جج جیل کیوں جاسکتے - لفٹیٹنٹ جنرل امجد شعیب کو حوالات کی سیر کرائی جاسکتی مگر جسٹس جاوہد اقبال نامی گھٹیا اور بدعنوان ریٹائر جج کے خلاف کارروائی ہونے لگے تو لاہور ہائی کورٹ دفاع کے لیے کود پڑتی ہے - اسلام آباد ہائی کورٹ بدنام زمانہ چیف جسٹس ر ثاقب نثار کے کرپٹ بیٹے کو بچانے کے لیے گارڈ کا کام کررہی ہے - مراعات کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں  شامل ہونے والی پاکستانی عدلیہ کارکردگی کے لحاظ سے 139 ویں نمبر پر ہے - عمران دار ججوں کے دن رات سیاست میں گھسے رہنے کے سبب آج عالم یہ ہے کہ التواسپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ساڑھے 54ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے15جون تک تیار کردہ رپورٹ کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔سپریم کورٹ میں زیر التوا سول پیٹیشنز کی تعداد29ہزار 557تک پہنچ گئی،زیر التوا سول اپیلوں کی تعداد9ہزار 758ہوگئی جبکہ زیر التوا فوجداری درخواستوں کی تعداد8ہزار 915ہے۔رپورٹ کے مطابق زیر التو نظر ثانی درخواستوں کی تعداد ایک ہزار438،زیر التوا فوجداری اپیلوں کی تعداد ایک ہزار62اورزیر التوا آئینی درخواستیں130ہیں۔سپریم کورٹ میں25ازخود نوٹس زیر التوا ہیں جبکہ رپورٹ کے مطابق ایک ریفرنس بھی زیر التوا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا  دعوی ہے کہ وہ نیوٹرل ہوچکی لیکن پچھلے افسروں کا ڈالا گند کس نے صاف کرنا ہے - عدلیہ میں “ میجر سرجری “ کیے بغیر  بغیر ملک میں استحکام نہیں آسکتا -سنھرا موقع تو یہ ہے کہ عمران دار  ججوں نے مواقع بھی خود ہی فراہم کردئیے ہیں - باجوہ ، فیض  سیاسی نیٹ ورک کی طرح ان دونوں کا عدالتی نیٹ ورک بھی توڑنا ہوگا -حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہو گے -سڑکوں پر آنے کا راستہ تو کھلا ہی ہے - وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوگا جب ہم خیال ججوں کے حامی وکلا احتجاج کریں گے اور انہیں جواب دینے کے لیے ایسی عدالتوں کے بالکل سامنے دفاع پاکستان کونسل جیسی “ متحرک “ تنظیموں کے کیمپ لگے ہونگے -

ضروری نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر