تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی رہا ۔ مسجد رحمت اللعالمین پہنچنے پر پر تپاک استقبال۔پھول نچھاور

Nov 18, 2021 | 16:38:PM
ٹی ایل پیکارکن رہا۔گرفتار
کیپشن: حافظ سعد حسین رضوی(فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز)حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں پیشرفت ہوئی ہے اور حکومت نے تحریک لبیک کے سربراہ صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی کو 7ماہ بعد 7روز بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کر دیا ہے۔
رہائی کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں کارکنان مسجد رحمت اللعالمین پہنچ گئے اور سعد رضوی کی آمد پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے ان کا پرتپاک استقبال کیا ، اس موقع پر کارکن لبیک یارسو ل اللہ کے نعرے لگاتے رہے ، سعد رضوی نے رہائی کے بعد اپنے والد خادم حسین رضوی کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی ۔تفصیلات کے مطابق رہائی کی خبر ملتے ہی بڑی تعداد میں کارکن جماعت کے مرکز پہنچنا شروع ہو گئے اور لبیک یارسو ل اللہ کے نعرے لگاتے رہے ۔ سعد رضوی کی آمد پر کارکنوں نے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے پرتپاک استقبال کیا ۔ سعد رضوی کی رہائی اور استقبال کی وجہ سے چوک یتیم خانہ ملتان روڈ پرٹریفک کا نظام تعطل کا شکار رہا ۔تحریک لبیک کی مرکزی قیادت بھی سعد حسین رضوی کے استقبال کے لئے موجود تھی ۔سعد رضوی اپنے والد مولانا خادم حسین رضوی کے کل ( جمعہ )سے شروع ہونے والے عرس کی تقریبات میں شریک ہوں گے ،خادم حسین رضوی کا عرس 21 نومبر تک جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ تحریک لبیک نے حکومت کو فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کےلئے 20 اپریل تک کا وقت دیا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک لبیک کی جانب سے ممکنہ مظاہروں کو مدنظر رکھتے ہوئے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے 11 اپریل کو سعد رضوی کو حراست لیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیش نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔ یکم اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائیکورٹ کا ڈویژن بنچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بنچ کے حکم پر عملدرآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بنچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو ٹی ایل پی نے حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لئے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔ بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ بعدازاں 28 اکتوبر کو بھی مریدکے اور سادھوکی کے قریب مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 4 اہلکار شہید اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔گزشتہ ماہ حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جس میں طے پایا گیا تھا کہ ٹی ایل پی لانگ مارچ اور پر تشدد مظاہروں کو چھوڑ کر ملکی سیاست میں حصہ لینے کیلئے آزاد ہو گی۔مذاکرات میں وفاقی وزراءاور ممتاز عالم دین شریک تھے۔ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد وفاقی کابینہ کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیم کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا جبکہ حکومت نے بھی سعد رضوی کے خلاف ریفرنس واپس لے لیا تھا جس کے نتیجے میں سعد رضوی کی رہائی عمل میں آئی ہے۔


یہ بھی پڑھیں۔نجی دفاتر میں 50 فیصد اسٹاف بلانے کی ہدایت۔ لاہور ہائیکورٹ