متحدہ اپوزیشن کا الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان 

Nov 17, 2021 | 19:06:PM
انتخابی اصلاحات۔مسترد۔چیلنج۔اعلان۔متحدہ۔اپوزیشن
کیپشن:  اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز) متحدہ اپوزیشن نے الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کو بلڈوز کیا گیا ہے، اس ماحول میں قانون سازی نہیں ہوسکتی،ای وی ایم کا بل پاس کرکے الیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن خود ای وی ایم سے مطمئن نہیں ، جوائنٹ سیشن سے کسی بل کو منظور کروانے کےلئے 221 ووٹ کا ہونا ضروری ہے، مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں ہوئی، کلبھوشن کو این آر او، الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگ ربل کو ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ، چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زر داری ، جے یو آئی کے رہنما اسعد محمود اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما امیر حیدر خان ہوتی و دیگرنے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آﺅٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر نے پارلیمنٹ کے رول پاو¿ں تلے روندھے ہیں، رول 10 کے تحت مشترکہ اجلاس کے لیے 222 ارکان کی اکثریت ضروری ہوتی ہے، لیکن حکومت کے پاس 212 ارکان بھی نہیں تھے۔انہوںنے کہاکہ ووٹ کی گنتی کو غلط پیش کیا گیااور ہم نے اسپیکر سے باربار درخواست کی کہ ڈویژن کروائیں، یہ ووٹنگ کی گنتی غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر 221 ووٹ پر تلے ہوئے تھے، ہم نے آئین اور قانون کے حوالے دیئے لیکن اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں مانی ،وہ ای وی ایم اور دوسرے بل منظور کروانے پر تلے ہوئے تھے۔شہباز شریف نے کہا کہ جس طریقے سے بلڈوز کرتے گئے،ہم نے احتجاج کیا اور اسپیکر پاس گئے اور کہا آپ بہت زیادتی کر رہے ہیں اور بتایا کہ آپ نے کہا تھا پارٹی لائن سے باہر نکل کر کردار ادا کروں گا تاہم یہاں بالکل اس کے الٹ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں سنی، بطور قائد حزب اختلاف میرا استحقاق ہے کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کروں تاہم اسپیکر نے میرا مائیک نہیں کھولا۔انہوںنے کہاکہ ہماری بھرپور تعداد تھی، چند ارکان بیمار تھے اس لئے وہ ایوان میں موجودنہیں تھے ، ہماری بھرپور تعداد تھی لیکن اسپیکر پی ٹی آئی کا حواری بنا ہوا تھا، جس طرح نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، آج اسپیکر پی ٹی آئی گٹھ جوڑ نے بھرپور کام دکھایا۔انہوںنے کہاکہ پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ای وی ایم کو الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا ہے تو آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں کہ دنیا کے 167 ممالک میں سے صرف 8 ممالک میں یہ چل رہا ہے اور9 ممالک اس کو چھوڑ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے آرٹی ایس سے جان نہیں چھوٹی، جس نے ایک دھاندلی زدہ حکومت اور جعلی حکومت کو قوم پر مسلط کردیا ہے، مہنگائی بے روزگاری نے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اب یہ ای وی ایم مسلط کرنا چاہتے ہیں یہ نہیں ہوگا۔انہوںنے کہاکہ اسپیکر نے ہماری کوئی بات نہیں سنی، قانون، قاعدے اور رولز کو پاو¿ں تلے روندھا اور دھجیاں اڑائیں، جس کے بعد ہم وہاں سے آئے تاکہ پوری قوم کو بتائیں کہ اس ہاو¿س کے اندر قوم کی قسمت سے کس طرح کھیلا جارہا ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میں نے کہا کہ عمران خان نیازی آپ جتنا زور ای وی ایم پر لگارہے ہیں اگر یہ زور مہنگائی اور بے روزگاری پر لگاتے تو شاید ملک کے حالات اتنے برے نہ ہوتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پورے ملک کو پتہ ہونا چاہئے کہ آج مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں شکست ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ اجلاس اور معمول کے اجلاس کے قواعد الگ ہوتے ہیں اور اسپیکر کو دھیان دلانے اور حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی، 1993 کا مشترکہ اجلاس کا رول ہے اوروہ یہ کہتا ہے کہ مشترکہ اجلاس سے بل منظور کرنے کے لیے حکومت کے پاس دونوں ایوان کی مجموعی تعداد کا آدھا ووٹ ہونا چاہئے۔انہوںنے کہاکہ اگر قومی اسمبلی کے 342 اور سینیٹ 100 اراکین ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مشترکہ اجلاس سے بل منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس 222 ووٹ کم ازکم ضروری ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپوزیشن کے کتنے ارکان حاضر ہیں یا غیرحاضر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی بینچز میں ارکان کی تعداد 222 سے زیادہ نہیں بنتی ہے تو وہ جو قانون بنانا چاہ رہے ہیں وہ نہیں بنتا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ای وی ایم اور کلبھوشن یادیو کے این آر او کےلئے یہ قانون قاعدے کے مطابق ہیں تو ہم اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، ای وی ایمز پر الیکشن کمیشن کو بھی سمجھائیں گے، کہ آج ای وی ایم کا قانون نہیں بنا اور آج کلبھوشن یادیو کو این آر او نہیں دیا گیا، وہ اس لئے کہ حکومت نے تعداد پوری نہیں کی اور پارلیمنٹ کے تمام قاعدے ایک سائیڈ پر رکھ کر یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ میڈیا سے اپیل ہے اور آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ قوم کو سمجھائیں کہ حکومت ناکام رہی ہے، یہ قانون آج پاکستان کا قانون نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم پر انتخابی ای وی ایم کی بات ہو، کلبھوشن کے این آر او کی بات ہو، آئی ایم ایف کی غلامی کی بات ہو ہم متحدہ ہیں اور ہر فورم پر ان مسائل کو چیلنج کریں گے۔انہوںنے کہاکہ یہ افسوس کی بات ہے کہ جب ملک پریشانی میں ہے، عوام تکلیف میں ہیں، ملک اس پارلیمان کی طرف دیکھ رہا ہے کہ سیاست دان جمع ہوئے ہیں شاید وہ ہمارے مسائل پر بات کریں گے، شاید مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرنے پر بات کریں گے، عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے، پارلیمان عوام کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے، یہ قابل مذمت بات ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں متحدہ اپوزیشن کو مبارک باد دینا چاہوں گا کہ آپ نے معمول کے سیشن میں حکومت کو شکست دی، پچھلے مشترکہ اجلاس میں حکومت کو بھاگنے پر مجبور کیا اور آج بھی حکومت ناکام رہی اور اپنی 222 کی تعداد پوری نہیں کرسکی۔انہوںنے کہاکہ حکومت ہمارے مطابق اپنی قانونی سازی مکمل نہیں کرسکی ہے۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر اسعد محمود نے کہا کہ ہم نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ یک طرفہ کارروائی قوم تسلیم نہیں کرے گی اور انہیں پھر دعوت دی کہ آپ کو کیا جلدی ہے اگر قوم کے مفاد میں قانون سازی کر رہے ہیں تو اپوزیشن آپ کی دعوت قبول کر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے دھاندلی کے ذریعے بل منظور کئے ہیں تو ان سے کوئی توقع کیسے کرسکتا ہے کہ 22 کروڑ عوام کو عام انتخابات میں شفاف انتخابات دے سکتے ہیں۔اسعد محمود نے کہا کہ پوری قوم کے سامنے جس طریقے سے ایوان چلایا ۔انہوںنے کہاکہ حکومت کا کوئی اتحادی ان کے حق میں کھڑا نہیں ہوا اور تسلیم کیا ہو ہم اپنی مرضی سے ووٹ کر رہے ہیں، ان کے چہرے سے عیاں تھا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے گزشتہ روز کہا تھا کہ جبر کی بنیاد پر ان کا انتظام کیا گیا ہے اور ہم برملا کہتے ہیں کہ حکومت کےلئے اداروں نے یہ قانون سازی انتظام کی ہے، ہم ببانگ دہل کہتے ہیں اور قطعاً تسلیم نہیں کرتے اور ہر فورم پر اس کو لے کر جائیں گے۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے اور اس دروازے پر بھی عوام کو لائیں گے جبر ہے تو جبر کا مقابلہ جبر کےساتھ ہوگا، ہم اس میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیرحیدر ہوتی نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے لئے قانون سازی کی گئی لیکن پاکستان کے ایک شہری اور منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر اس وقت زیر حراست ہے لیکن اسپیکر نے اتنا گوارا نہیں کیا کہ اس کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے۔انہوںنے کہاکہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، اسپیکر کو ہاو¿س کا سربراہ ہونا چاہئے، پچھلے دنوں مذاکرات کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اور آج جو ان کا کردار تھا بدقسمتی سے اسپیکر صاحب اب مکمل طور پر متنازع ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کی کچھ روایات رہی ہیں لیکن آج ان روایات کو روندا گیا ہے، غیرآئینی اور غیر قانونی طریقے سے قانون سازی کی گئی ہے، جس کو ہم نہیں مانتے۔امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ 2018 کے انتخابات جو اصل میں سلیکشن تھے، ابھی اس کا تنازع ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا تنازع کھڑا کردیا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ آئندہ الیکشن جب ہوں گے،جب ہوں گے لیکن حکومت نے آج سے ہی انہیں متنازع بنادیا ہے، ای وی ایم کا قانون منظور کرکے آج ہی انتخابات پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کا کام ہے اور الیکشن کمیشن خود ای وی ایم سے متفق نہیں ہے تو لہٰذا ہم نے پارلیمنٹ کے فلور پر عوام کی نمائندگی کی۔رہنما اے این پی نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اور کوئی راستہ نہیں رہا تو سیاسی اور پارلیمانی معاملات عدالتوں میں جائیں گے کہ حکومت نے ہمارے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ 
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ کلبھوشن کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی ہے لیکن آج اس کو این آر او دے دیا گیا ہے اور اس حوالے سے ہماری ترامیم کو نہیں سنا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سوگ ہے، چند دن پہلے سری نگر سے دبئی کے لئے پروازیں شروع کی تھی اور اب کلبھوشن کو این آر او دے دیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، حکومت نے کشمیر کا سودا کیا ہے، تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے، مودی کی یاری اور دوستی کا ثبوت پارلیمنٹ میں دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ ای وی ایم ڈیجیٹل دھاندلی کا منصوبہ ہے، جو حکومت پارلیمنٹ کے اندر ڈیجیٹل ووٹنگ اپنے پپارلیمنٹرین کی نہ کراسکے، جو ایف بی آر کے ڈیٹا کو محفوظ نہ کرسکے، جو نیشنل بینک آف پاکستان کو محفوظ نہ کرسکے وہ 22 کروڑ عوام اور 15 کروڑ ووٹرز کے لئے ای وی ایم کا منصوبہ بنا رہی ہے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ فراڈ ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات اٹھا کر انتظامیہ اور نادرا کو دینا، ای وی ایم کے ذریعے مستقل کے ووٹ چوری کرنے کی ہم مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمیں نہیں سناگیا حالانکہ اپوزیشن کی درجنوں ترامیم تھیں، قانون کی نام پر سب سے بڑی لاقانونیت حکومت اور اسپیکر نے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ پارلیمانی اپوزیشن نے آج جس طرح ایک اتحاد کامظاہرہ کیا ہے، ہم آئندہ بھی اس حکومت کی الیکشن چوری کرنے، مودی اور بھارت سے یاری کی جتنی بھی کوششیں ہوں گی، تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوں گی، اس کے خلاف متحدہ اپوزیشن اسی طرح، اتحاد کا مظاہرہ کرے گی۔
 یہ بھی پڑھیں۔حرا مانی کو گانا گانا مہنگا پڑ گیا۔لباس ایسا کہ صارفین نے تنقید کر دی۔ویڈیو دیکھیں