محمد علی مرزا پرقاتلانہ حملہ، بال بال بچ گئے

Mar 16, 2021 | 15:14:PM
 محمد علی مرزا پرقاتلانہ حملہ، بال بال بچ گئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز,)مشہور عالم دین انجینئر محمد علی مرزا پنجاب کے ضلع جہلم کی ایک دینی اکیڈمی میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔مشتبہ شخص نے مبینہ طور پر  تیز دھار آلے سے حملہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق اتوار کی دوپہر کو ایک مشتبہ شخص نے مبینہ طور پر انجینئر محمد علی مرزا پر تیز دھار آلے سے حملہ کیا اور مذکورہ شخص کو حراست میں لے کر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔جہلم شہر کے مشین محلہ کے رہائشی محمد علی مرزا اپنے ریکارڈ شدہ کے ساتھ ساتھ لائیو لیکچرز اور تقریروں کی ویڈیوز اپنے سوشل میڈیا پیجز پر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں اور ان کے یوٹیوب چینل پر فالوورز کی تعداد 46لاکھ ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324 (اقدام قتل) کے تحت محمد علی مرزا کی شکایت پر درج واقعے کی ایف آئی آر میں عالم دین نے بتایا کہ اس نے انہوں نے ایک عمارت میں واقع ریسرچ اکیڈمی میں ہفتہ وار درس دیا۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اتوار کی سہ پہر محمد علی مرزا کی جانب سے لیکچر دینے کے بعد ایک شخص قتل کی نیت سے تیز دھار آلا لے کر ان کی جانب بڑھا، پولیس ترجمان کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب مرزا لیکچر کے بعد تصاویر کھینچوا رہے تھے۔

مرزا نے اپنی شکایت میں کہا کہ اگرچہ حملہ آور ان کی گردن پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ تیزی سے ایک طرف ہٹ گئے اور تیز دھار ہتھیار ان کے کندھے پر لگا، ایف آئی آر کے مطابق حملہ آور نے پھر عالم دین پر حملے کی کوشش کی لیکن ہال میں موجود دو افراد نے اسے روک لیا۔سٹی پولیس اسٹیشن کے پولیس ترجمان چوہدری محمد عمران نے بتایا کہ اس واقعے میں انجینئر محمد علی مرزا کو معمولی چوٹ آئی ہے اور ابتدائی طبی امداد کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

حملہ آور کی شناخت لاہور کے 21 سالہ رہائشی کے طور پر کی گئی ہے جو 'قتل کے ارادے سے' جہلم آیا تھا۔پولیس اہلکار نے بتایا کہ موقع سے گرفتار ہونے کے بعد مشتبہ شخص نے مرزا پر 'لوگوں کو دھوکہ دینے' کا الزام عائد کیا اور ان کی تعلیمات پر سخت لعن طعن کی۔گذشتہ سال مئی میں جہلم پولیس نے مشہور مذہبی اسکالرز کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دینے کے الزام میں محمد علی مرزا کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا تھا، ایک مقامی عدالت کی جانب سے ضمانت کی درخواست منظور ہونے کے بعد انہیں ایک دن بعد رہا کردیا گیا تھا۔