پاکستان ، آذربائیجان ، ترکی  "ٹرائیکا فرینڈشپ" دنیا بھر میں مرکز نگاہ 

احمد منصور | عالمی تجارت اور سمندری گذرگاہوں کے دروازے بھی اور چوراہے بھی،  تینوں دوست ممالک کی منفرد جیواسٹریٹجک پوزیشنیں قدرت کا عظیم تحفہ

Nov 14, 2023 | 16:46:PM
پاکستان ، آذربائیجان ، ترکی  
کیپشن: file
سورس: 24نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پاکستان ، آذربائیجان  اور  ترکی پر مشتمل  "ٹرائیکا فرینڈشپ" دنیا بھر میں مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے ، تینوں ممالک عالمی تجارت اور سمندری گذرگاہوں کے دروازے بھی ہیں  اور چوراہے بھی ، یہ منفرد جیواسٹریٹجک پوزیشنیں قدرت کا عظیم تحفہ ہیں ، انہی بےمثال مشترکہ خوبیوں اور عظیم تاریخی و مذہبی رشتوں نے آذربائیجان ، پاکستان اور ترکی کو بے نظیر دوستی کے  بندھن میں باندھ رکھا ہے ، جس کی وجہ سے یہ  مضبوط سہ فریقی اتحاد تینوں ممالک کی سلامتی ، اقتصادیات اور سفارت کاری کیلئے ایک ناقابل شکست منی اسٹریٹجک بلاک بن کر  ابھر رہا ہے ۔

پاکستان ، آذر بائیجان اور ترکی کو ایشیاء و یورپ کے خطے میں جسے یوریشیا بھی کہا جاتا ہے تین ایسے عظیم دوست ممالک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے کہ جنہیں آپ  یک جان سہ قالب بھی کہہ سکتے ہیں ، ان تینوں ممالک میں آذر بائیجان کو یہ عظمت اور برتری حاصل ہے کہ یہاں اسلام خلافت راشدہ میں پھیلا اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عظیم صحابی رسول حضرت عتبہ بن فرقد سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آذر بائیجان کا پہلا گورنر مقرر فرمایا ،  حضرت عتبہ بن فرقد سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق قریش کے معروف قبیلے بنو سلیم سے تھا، آپ نے قبول اسلام کے بعد غزوہ خیبر سمیت کئی غزوات میں حصہ لیا ۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ جھوٹے نبیوں کے قلع قمع کیلئے لڑی گئی خلافت راشدہ کی ابتدائی جنگوں میں بھی شجاعت کے جوہر دکھائے ، ترکی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ سرزمین  خلافت عثمانیہ کے ذریعے 600 سال تک عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کی علامت بنی رہی اور پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پہلی عالمی جنگ میں جب ترکی پر سخت وقت آیا تو برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کی حمایت اور بقا کیلئے عظیم تحریک خلافت چلائی جس میں موجودہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے علاقوں کے مسلمانوں اور علماء کرام نے بے پناہ قربانیاں دیں ، اسی طرح کا سخت وقت جب آذر بائیجان پر آیا اور نگورنو کاراباخ کی جنگ چھڑی تو پاکستان نے یوریشیا کے اس خطے کے ساتھ اپنے تاریخی ملی و قلبی تعلق کی یادیں تازہ کیں اور ڈٹ کر آذر بائیجان کا ساتھ دیا ، پاکستان اور آذر بائیجان کی داستان میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کو اپنے قیام  کے ساتھ ہی جموں و کشمیر پر ہمسایہ ملک بھارت کے غاصبانہ قبضے کا سامنا کرنا پڑا اور اس حوالے سے کئی جنگیں لڑنا پڑیں ، اسی طرح آذر بائیجان کو بھی اپنے قیام کے ساتھ ہی اپنے علاقے نگورنو کاراباخ پر ہمسایہ مسیحی ریاست آرمینیا کے غاصبانہ قبضے کا سامنا کرنا پڑا اور بار بار جنگیں لڑنا پڑیں ۔

ضرورپڑھیں :حماس،اسرائیل جنگ:دنیا پر کیا اثرات ہوں گے؟

پاکستان اور آذر بائیجان کا رشتہ  اس لیئے بھی اہم ہے کہ بھارت کی طرف سے وسط ایشیاء ، یوریشیا ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں پھیلائے گئے پراکسی وارز نیٹ ورکس کے دونوں ملک ڈسے ہوئے ہیں ، ایک طرف بھارت براستہ ایران آرمینیا کو ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی کے ذریعے آذر بائیجان کی سلامتی کیلئے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف آرمینیا کو سپلائی کیئے جانیوالے بھارتی ہتھیاروں کو راستے میں داعش اور ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کو سپلائی بھی کیا جاتا ہے ، اس حوالے سے ہوشربا تفصیلات آذر بائیجان کے میڈیا میں شائع ہوتی رہتی ہیں ، اب تو روس کے صدر پیوٹن نے بھی مشرق وسطیٰ سے افغانستان تک پھیلے پراکسی وارز نیٹ ورکس اور ان نیٹ ورکس کو ہتھیاروں کی سپلائی کے حوالے سے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ یوکرین کو فراہم کیئے جانے والے جدید ترین امریکی و یورپی ہتھیار براستہ رومانیہ ، جارجیا ،  آرمینیا مشرق وسطیٰ کی بلیک مارکیٹ میں پہنچتے ہیں اور وہاں سے طالبان کو سپلائی کیئے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ  آرمینیا و بھارت اور  ٹی ٹی پی و داعش جیسے ممالک اور پراکسیز کی شروع کی ہوئی جنگیں اور دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے میں پاکستان آذر بائیجان دوستی انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔

یہ بھی پڑھیں:گریٹر اسرائیل ذہنی اختراع نہیں بلکہ حقیقت ہے

۔ آذربائیجان کی طرف سے 2020ء میں لڑی گئی نگورنو کاراباخ کی جنگ میں ترکی اور پاکستان کے اہم کردار کی وجہ سے یہ متحرک شراکت داری تاریخی شناخت ، فوجی تعاون اور انسانی ہمدردی کی مشترکہ کوششوں  کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک مثال مانی جاتی ہے ۔ دوسری جانب ترکی اور آذربائیجان دونوں دوست ممالک نے کشمیر کاز پر ہمیشہ ڈٹ کر  پاکستان کی حمایت کی ہے ۔ یہ عظیم  رشتہ ایک پرامن اور تیزی سے ترقی کرنے والے عظیم تر یوریشیا کی تشکیل کی سمت میں قابل قدر سفر ہے جو جلد اپنی منزل سے ہم کنار ہو گا ، انشاء اللہ

پاکستان ، آذر بائیجان اور ترکی کی اس اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی جڑیں ترکی اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات سے جڑی ہیں، جو کہ 1947 میں پاکستان  کی آزادی سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، ترکی اور پاکستان دونوں نے آذربائیجان کو ایک نئی آزاد قومی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے میں جس طرح  والہانہ سبقت لی اسے دارالحکومت باکو سمیت پورے ملک میں سراہا جاتا ہے ۔ 

پاکستان کے نہ صرف آذر بائیجان کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات ہیں بلکہ بحیرہ کیسپیئن کے دروازے پر واقع یہ برادر مسلم ملک پاکستانی ہتھیاروں کا ایک اہم خریدار بھی ہے ، اسی طرح ترکی بھی نہ صرف آذر بائیجان کو اس کی ضرورت کےجدید ہتھیار ترجیحی بنیادوں پر سپلائی کرتا ہے ، بلکہ پاکستان اور ترکی کے دو طرفہ دفاعی تعلقات بھی مثالی ہیں ، دونوں ملک نہ صرف ڈرون طیاروں ، میزائلوں اور دیگر دفاعی  شعبوں میں جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کی ایک دوسرے کو فراہمی میں پرجوش ہیں بلکہ ایک دوسرے سے اپنی اپنی ضرورت کے ہتھیار اور گولہ بارود انتہائی بااعتماد و پرخلوص انداز میں ترجیحی بنیادوں پر خریدتے ہیں ، ترکی کو چونکہ  مغرب کی جانب سے میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کے پرزوں اور ٹیکنالوجی کے حصول میں پابندیوں کا سامنا  ہے اس لیئے پاکستان اس کمی کو پورا کرنے میں غیر معمولی تعاون کر رہا ہے۔


عسکری تعلقات کی اس عظیم گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ پاکستان ، ترکی اور آذر بائیجان عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کر رہے ہیں ،  آذربائیجان کی خاتون اول مہربان علیئیفا کی قیادت میں حیدر علییف فاؤنڈیشن نے پاکستان میں انسانی ہمدردی کے حوالے سے خدمات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تعلیم ، ماحولیات اور صحت کے کئی منصوبے مکمل کیئے ہیں جن میں مظفر آباد میں آل گرلز سکول اور ڈیرہ اسماعیل خان میں حیدر علیوف واٹر سپلائی اسکیم جیسے کئی پراجیکٹس شامل ہیں ۔


جولائی 2021 کا باکو اعلامیہ بھی تینوں ممالک کے ثقافتی تعلقات ، باہمی احترام اور بڑھتے ہوئے اعتماد میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے ۔  "تھری برادرز-2021" جیسی مشترکہ جنگی مشقیں تینوں دوست ممالک کیخلاف دشمنوں کے مذموم عزائم کے حوالے سے ایک مضبوط ڈیٹرنس ثابت ہوئی ہیں ، آذر بائیجان تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ قیمتی دھاتوں کی دولت سے بھی مالا مال ہے اور بحیرہ کیسپیئن کا دروازہ بھی ہے ، اسی طرح ترکی آبنائے باسفورس کی وجہ سے مشرقی یورپی ممالک اور یوریشیا کو عالمی سمندروں کے ساتھ منسلک کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے ، پاکستان کا سی پیک پراجیکٹ اور کراچی و گوادر کی بندرگاہوں کو دنیا ایشیاء کے گیٹ وے کی حیثیت سے جانتی ہیں اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ یہ تینوں دوست ممالک ایشیاء و مشرقی یورپ اور مشرقِ وسطیٰ و جنوبی ایشیا کا چوک و چوراہا ہیں تو بے جا نہ ہوگا ، عالمی تجارت میں تینوں ممالک کی اسی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے پاکستان آذر بائیجان اور ترکی کی دوستی ہر نئے روز کے ساتھ مزید اہمیت کی حامل ہوتی جا رہی ہے ۔ تینوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی اہمیت کو  کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں ،  انقرہ، باکو، اور اسلام آباد کے درمیان اس حوالے سے مزید بات چیت جاری ہے ۔  تجارت ، سرمایہ کاری ، نقل و حمل ، سیاحت اور بینکنگ کے شعبوں  میں تعاون کو مزید  تیز کیا جا رہا  ہے۔ جنوری میں اس حوالے سے "اسلام آباد اعلامیہ" پر دستخط کیئے گئے ، یہ اعلامیہ بھی سہہ فریقی اقتصادی تعلقات کو مزید  گہرا کرنے کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

تینوں ممالک کشمیر ، قبرص ، نگورنو کاراباخ اور انسداد دہشت گردی کی جدوجہد جیسے عالمی مسائل پر مشترکہ موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اور قابل اطمینان امر ی ہے کہ تینوں نے انتہائی پرخلوص انداز میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ملک سفارتی طور پر کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہ کرے ۔

نوٹ :یہ تحریر رائٹر کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر