گریٹر اسرائیل ذہنی اختراع نہیں بلکہ حقیقت ہے

حسیب اصغر

Oct 26, 2023 | 16:01:PM
گریٹر اسرائیل ذہنی اختراع نہیں بلکہ حقیقت ہے
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24urdu.com
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی دائیں بازوں کی جماعت لیکود کے سربراہ اور وزیراعظم نیتن یاہو نے 19 اپریل 203 کو  مقبوضہ بیت المقدس کے ماؤنٹ ہرزل میں ہلاک ہونے والے یہودیوں کے لیے یادگار ہال کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب  سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آج ہم ماؤنٹ ہرزل کی زمین میں اپنے ملک کے لئے جان دینے والوں کےلئے  جو سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں وہ ہمارے ملک میں ایک اضافی یادگاری جگہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کتنی تکلیف کی بات ہےکہ ایک ایسی ریاست جو مشکل سے اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوئی ہے اس کے خلاف دہشتگردانہ حملے کئے جارہے ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے ہم اپنے دشمنوں سے ہر سطح پر جواب لیں گے ہم ان کو چھوڑیں گے نہیں ان کو دنیا کے کسی کونےمیں سکون سےنہیں رہنے دیا جائے گا جنہوں نے ہم پر ظلم کئے ہم اپنی تاریخ کو نہیں بھولے ہیں ہم ہر اس دشمن سے انتقام لیں گے جس نے ہمیں تباہ کیا ہے اور جو ہم کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا ۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے وجود کا سوال کبھی شک میں تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے آج اسرائیل دنیا کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ وہ بیان ہے جو اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے لوگوں سے یروشلم میں یہودیوں کے تاریخی قبرستان میں  مرنے والوں کی نئی یادگار کے قیام کے موقع پر دیا جس کا  واضح مقصد سب کوسمجھ آرہا ہے لیکن نہیں آرہا ہے تو عربوں کو نہیں آرہا ہے جو بہت جلد اپنی آبروں اور اپنی حاکمیت صیہونی دشمن کے ہاتھوں  لٹتے دیکھنے کے متمنی ہیں۔

اس بیا ن میں نیتن یاہو نے ایک دھمکی  بھی دی  جس میں انھوں نےعربوں کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ  اگرچہ اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کا حصول ناممکن نظر آتا ہے، لیکن بالآخر امن یہودیت کو اور یہودی ریاست کو  تسلیم کرکے ہی حاصل کیا جائے گا اور یہ ریاست وہاں تک ہے جہاں تک کبھی یہودی آباد رہےہیں اور ان کو جبری طورپر ان کےعلاقوں سے بے دخل کیا گیا ہے۔

ضرورپڑھیں:پاکستان نے فلسطین میں غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کردیا

اس بیان میں ان کی دھمکی کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ایک ایسی مذہبی بنیاد پرست ریاست ریاست کا ذکر کرہے ہیں جس کی سرحدیں یروشلم سے مدینہ تک پھیل سکتی ہیں یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس سے اسلام کو تو نہیں لیکن عرب بادشاہوں او رعربوں کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ موضوع کی جانب بڑھنے سے پہلے نیتن یاہو کی 22ستمبر 2023 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کا کچھ زکر کرنا چاہوں  گا جس میں  انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ طے پانا عربوں کو امن معاہدوں کو انجام دینے پر مجبور کرے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ امن ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل دے گا اس بیان کے ساتھ ہی انھوں نے ایک نقشہ دیکھایا  جس پر نیا مشرق وسطی لکھا ہوا تھا۔

اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے فوراً بعد نیتن یاہو نے X ویب سائٹ پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ پوسٹ کیا اور لکھا: "میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی آپ (اسرائیلی عوام) اور ملک کے لیے لڑنا ہے۔

نیتن یاہو نے جو نقشہ دیکھایا تھا اس میں جن ممالک کو سبز رنگ میں رکھا گیا تھا ان میں مصر، سعودی عرب، اردن، امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش تھے  اور یہ ہم جانتے ہیں کہ مصر  اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ عشروں پرانے تعلقات ہیں جبکہ  متحدہ عرب امارات ، بحرین  اور سوڈان نے حالیہ ہی  غیر قانونی صیہونی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔

جو نقشہ پیش کیا گیا اس میں فلسطین کا کوئی وجود ہی نہیں تھا لیکن اس نقشے میں جو سب سے اہم ملک ہے وہ سعودی عرب ہے  اور اگر میں یہ کہوں کہ اسرائیل سعودی عرب سے تعلقات قائم کرنے کےلئے خطے کے ان ممالک سے بھی پینگیں بڑھا رہا ہے جن کو وہ درحقیقت میں منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا تو آپ کو میں کوئی احمقانہ بات کرنے والا انسان لگ سکتا ہوں لیکن جو حقائق میں پیش کرنےوالا ہوں اس کے بعد بہر حال یہ تاثر نہیں پید ہوگا ۔

اسرائیل سعودی عرب سے تعلقات اس لئے نہیں بڑھا رہا کہ وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے ، یا اس میں  مسلمانوں کے سب سے مقدس مقامات ہیں  ( گویا سعودی عرب سے تعلقات قائم ہونے کے بعد تمام عالم اسلام اس  ہنسی خوشی قبول کرلے گا) اسرائیل کو اس کی کوئی پرواہ بھی  نہیں ہے اس کا مشاہدہ آپ کو غزہ پر حالیہ صیہونی وحشیانہ بمباری سے ہوگیا ہوگا کہ عرب ممالک سمیت عالمی ادارے اور اقوام متحدہ چیخ چیخ کر وحشیانہ بمباری روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں اور اسرائیل کے کے کسی کی بات پر کوئی توجہ ہی  نہیں دے رہا ہے۔

سعودی عرب سے تعلقات بڑھانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسرائیل سعودی عرب میں   یہودیوں کے ان مقامات جہاں وہ عروج اسلام کے دورمیں نکالے گئے تھے وہاں واپس آنا چاہتا ہے ۔ جزیرہ نمائے عرب کے دائیں طرف، یثرب میں بیس کے قریب یہودی قبائل موجود تھے، جن میں بنو عکرمہ ، بنو ثعلبہ، بنو محمّر، بنو زعورا، بنو قینقاع، بنوالنضیر ، بنو ھدل ، بنو العلمین بنو النادر، بنو قریظہ، بنوھدل، بنو عوف، بنو القیس اور بنو مسیلہ یہ  وہ قبائل تھے جو یثرب میں آباد تھے جن کو فتح خیبر کے بعد اپنے علاقے چھوڑنا پڑے تھے  یہ وہ تاریخی حزیمت ہے جس کو یہودی آج تک نہیں بھولے ہیں وہ ایک ایسی  یہودی ریاست  چاہتے ہیں جس کی سرحدیں یروشلم سے مدینہ تک پھیلی ہوئی ہیں یہ وہ خواب ہیں جو انتہا پسند یہودی بنیاد پرست انتہا پسندوں کے ذہنوں میں اب بھی موجود ہیں۔

مذکورہ معلومات کوئی میری ذہنی اِخْتِراع نہیں ہے بلکہ  وق حقیقت ہے جس کا  اظہار خود اسرائیل کی سماجی مساوات کی وزیر گیلا گاملیل نے  جسٹس فار جیوز فرام عرب کنٹریز (جے جے اے سی) تنظیم کی جانب سے تیار کئے گئے ایک قانونی مسودہ  جس میں  ایران سمیت عرب ممالک سے ان یہودیوں کی جائیداد اور اثاثوں   کے ہرجانے کی حمایت کی گئی ہے جو اسلام  کے باعث ، نا نسل پرستی سمیت کسی بھی  وجہ سے ان ممالک سے اپنی جائیدادیں اور اثاثے چھوڑکر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے   ان اثاثوں کے ہرجانے جو تقریبا کل 250 بلین ڈالر کا معاوضہ  بنتا ہے جس کے لئے اسرائیل میں تیاری کی جارہی ہے۔

اسرائیل کی سماجی مساوات کی وزیر گیلا گاملیل نے کہا کہ "وقت آ گیا ہے کہ ایران سمیت عرب ممالک میں یہودیوں کے قتل عام  اوردیگر وجوہات کی بنیاد پر انخلا کی تاریخی ناانصافی کو درست کیا جائے اور ان لاکھوں یہودیوں کو بحال کیا جائے جنہوں نے اپنی املاک کھو دی تھیں، جو کہ بجا طور پر ان کی ہے۔" 

اس بیان کو اگر آپ باریک بینی سے دیکھیں تو سب سمجھ آجائے گا کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں جہاں وہ بزور طاقت اپنے مقاصد کا حصول کرسکتا ہے وہ کررہا ہے اور جہاں وہ روایتی عیاری اور مکاری کا سہارا لے سکتا ہے تو وہ بھی ہے رہا ہے ۔

جے جے اے سی نے اندازہ لگایا ہے کہ اسرائیل کے قیام سے اب تک  10 عرب ممالک سے تقریباً 856,000 یہودیوں کو بےدخل کیا گیا یا ان کو جبری طورپر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ،  ادارے کا کہنا ہے کہ گزشتہ 18 مہینوں سے، ایک بین الاقوامی اکاؤنٹنسی فرم کی خدمات کو بروئے کار لاتے ہوئے، اسرائیلی حکومت خاموشی سے جائیداد اور اثاثوں کی مالیت کی تحقیق کر رہی ہے  ۔

اسرائیل ایک جانب عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناناچاہتا ہے تو دوسری جانب تنازع کی اصل وجہ  مسئلہ فلسطین  کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جارہی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل  مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے جامع اور منصفانہ حل کو قبول نہیں کرنا چاہتی، جس میں فلسطینی سرزمین پر مکمل خود مختاری کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت  مقبوضہ بیت المقدس ہو ۔ 

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے  فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ ، "ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے ہر دن قریب آ رہے ہیں، لیکن مسئلہ فلسطین اس میل جول کے لیے  سب سے اہم ہے۔" اس کا مطلب ہے کہ  اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل دو ریاستی حل کے اصول کی بنیاد پر تنازع کا حل کس حد تک قبول کرتا ہے۔

 یہ بھی پڑھیں:حماس،اسرائیل جنگ،اسلامی تنظیم کی فتح یا 20لاکھ مسلمانوں کی قبربنانے کا منصوبہ؟سوالات اٹھ گئے

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے سیاسی تجزیہ کار  ڈاکٹر ھانی  العقاد نے اپنے حالیہ ایک انٹر ویو میں اسرائیل اور سعودیہ عرب کے درمیان  تعلقات کے حوالے سے کہا ہے کہ  صیہونی ریاست کے وزیراعظم  نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جو نقشہ دیکھایا اس میں سعودی عرب کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اس نقشے میں فلسطین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے  اور یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے کہ جب سعودی ولی عہد اور سعودی حکومت  برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات فلسطین کی خودمختار ریاست  کے قیام کی کوششوں پر منحصر ہے، انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنےوالے دیگر عرب ممالک کا بھی یہی مؤقف تھا کہ آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی سمت کا تعین کرے گی لیکن آزاد اور خودمختار تو دور فلسطینیوں پر تاریخ کے بدترین ظلم اور نسل کشی کے باوجود ان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے تو درو نہیں ہے کہ سعودی عرب بھی جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا  اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب گریٹر اسرائیل کا قیام عمل میں آئے گا اور غفلت میں ڈوبے خودغرض  اپنی بادشاہت بچانے کی کوشش میں امت کا سودا کرنے والے حکمران فلسطینیوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبورہوں گے۔

 نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر