محسن پنجاب نامنظور ،مگر کیوں ؟

عامر رضا خان 

Mar 14, 2024 | 15:28:PM
محسن پنجاب نامنظور ،مگر کیوں ؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ہم ملاوٹ پسند لوگ ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہمیں خالص کی عادت ہی نہیں رہی، خالص دودھ پئیں تو بیمار ، خالص مصالحے کھائیں تو بیمار ہمیں ملاوٹ والی ادویات بھی راس نہیں آتیں تو خالص انسان کیسے برداشت ہوسکتا ہے ،مجھے یہ خیال قطعی ذہن میں نہ آتا اگر میں نے پی ٹی آئی کے کٹھ پُتلی چیئرمین بیرسٹر گوہر کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا کانفرنس نا سُنی ہوتی جس میں موصوف فرمارہے تھے کہ محسن نقوی کو ایک خاص ایجنڈے اور خاص کام کے لیے وفاقی وزیر داخلہ بنایا گیا ہے، انہیں صرف اس لیے وزارت داخلہ دی گئی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو دبا سکیں ۔

 اس ایک بیان سے ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ الفاظ کی یہ پیچیش اس لیے ہے کہ اس جماعت میں کسی بھی خالص انسان کو ہضم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یہ عثمان بزدار میں ’وسیم اکرم پلس‘ کی آمیزش شدہ مغلوبے کے عادی تھے ،جسے یہ اپنے ہر جھوٹ کی طرح ہضم کر رہے تھے اور پھر کیا ہوا کہ ان کے اپنے کپتان نے ہی وہ شاخ کاٹ دی جس پر ان کا آشیانہ تھا اور یوں پنجاب کے عوام کو وسیم اکرم پلس کے دھوکے ، بے ایمانی اور کرپشن زدہ حکومت سے نجات مل گئی ،جھوٹ کی اس لنکا کو ان کے اپنے ہنومان نے آگ لگائی جس کا مقصد شائد ملک بھر میں آگ لگانا تھا لیکن ملک کے خیر خواہوں نے اس سے پہلے کہ یہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتے محسن نقوی کی شکل میں ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جس نے اپنے 13 مہینے کے دور حکومت میں وہ کردکھایا جس کی مثال بھی سابق کسی دور میں نہیں دی جاسکتی ۔
محسن نقوی کو پنجاب اور اس کی بیوروکریسی جس حال میں ملی وہ ناقابل بیان تھی، پاکپتن کی ملکہ اپنی گوجرانوالہ والی سہیلی بذریعہ تونسہ والے بزدار پورے سسٹم کو کرپٹ کرچکے تھے، ایک ایک سیٹ برائے فروخت تھی، پولیس اور سول بیورو کریسی میں سالوں کے حساب سے نہیں مہینوں کے حساب سے تقرریاں کی جارہی تھیں، ایک سنیئر بیوروکریٹ کے بقول سیٹس کی بولیاں لگ رہی تھیں۔ پنجاب میں سیٹ کے حصول کے لیے ہیروں کی انگوٹھیوں اور ہار کی خرید و فروخت کی جاتی تھی ۔سودا دبئی میں طے ہوتا اور تبادلہ یا تقرری "لوٹا گھما " کر رشوت خور موکلوں کے ذریعے کی جارہی تھی، پنجاب میں تمام ترقیاتی کام صرف منصوبوں کے بننے تک محدود تھے کاغذوں میں منصوبہ آیا ،ٹھیکے ہوئے ، ٹھیکداروں کو رقوم کی ادائیگی ہوئی، کمیشن لی جاتی اور منصوبہ ٹھپ ۔یہ تھا ترقی کا وہ سفر جو پنکی، گوگی ، عثمان بزدار اور بعدازاں پرویز الہیٰ کی شکل میں کھیلا جارہا تھا ،کھلے عام بولیوں کے اس کھیل کو چند نعروں اور لنگر خانوں میں دبایا جارہا تھا،چور چور کا شور مچایا جارہا تھا اور سب کچھ کھایا جارہا تھا بقول استاد دامن کے 
وچوں وچ کھائی جاؤ اتوں رولاپائی جاؤ
چاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں
آپو وچ ونڈی جاؤ تے آپو وچ کھائی جاؤ

انھاں مارے انھی نوں، گھسن وجے تھمی نوں
جنی تہا توں انھی پیندی، اونی انھی پائی جاؤ 
والی پالیسی پر پنجاب حکومت عمل پیرا تھی، چور چور کا ایسا طوفان کھڑا کیا گیا جو دیگر جماعتوں کے تمام ترقیاتی کاموں کو بہا لے گیا،نوجوان نسل ہر ترقیاتی کام میں کرپشن تلاش کرنے لگی اور جو کام نہیں، کرپشن کررہے تھے انہیں مسیحا سمجھا جانے لگا ، یہ تھے وہ حالات جس میں محسن نقوی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بنے اپنے صحافیانہ کیریئر کی بدولت یہی سمجھا جانے لگا کہ محسن نقوی ایک ایسے بڑے صوبے کو کیسے چلا پائیں گے؟سانحہ نو مئی ہوا جس میں دہشتگردوں نے وہ سب کچھ کیا جو اس ملک میں کبھی کسی بڑے سے بڑے سانحے میں بھی نہیں ہوا لیکن محسن نقوی نے بلا تنخواہ و مراعات کام شروع کیا، ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت پنجاب پولیس نے خانہ جنگی کے اس بڑے منصوبے کو نا صرف ناکام بنایا بلکہ اس میں شامل کرداروں کو پابند سلاسل بھی کیا ، شرپسندوں کی سرکوبی سے ذرا فرصت ملی تو نگران حکومت نے اپنے قلیل مدتی دور میں ترقی کا وہ پہیہ دوبارہ چلایا جس کو گزشتہ چار سال میں بزداری و ’عذاب الہیٰ ‘نامی زنگ لگ چکا تھا، اُن تمام ٹھیکداروں سے کام لیا گیا جو رقم کا حصہ بانٹ کر گھر جاچکے تھے ،ہسپتال ، روڈ انفرا سٹرکچر ، تفریح ، کاروبار گو تمام شعبہ ہائے زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا گیا اس انقلاب آفریں دور کی بدولت ہی الیکشن 2024 کے بعد جب کوئی مشکل ترین ٹاسک نئی آنے والی مخلوط حکومت کے سامنے آیا تو صرف ایک ہی نام میرٹ پر سامنے آیا اور وہ نام محسن نقوی کا تھا۔

 اپنی انتھک مخنت اور شبانہ روز کام کی بدولت محسن نقوی نے پنجاب میں مثالی کام کیا تھا لیکن اب کے مرحلہ ملک کے اندرونی معاملات کی اصلاح کا تھا لازم ہے کہ امن و امان ہو تو بیرونی سرمایہ کاری ہوگی اور بیرونی سرمایا کاری ہوگی تو معیشت کا پہیہ گھومے گا لہذا اب کے چناؤ محسن نقوی کا کیا گیا اور انہیں ملک کا 49 واں وزیر داخلہ بنایا گیا ہے ،انہوں نے داخلہ اور نارکوٹکس کی وزارت کا چارج لے لیا ، پہلے ہی روز اپنی معروف محسن سپیڈ کا آغاز کیا تنخواہ لینے سے انکار کرتے ہوئے خالصتاً قوم کے لیے کام کرنے کا اعلان کیا نارکوٹکس وزارت میں اپنے آفس کو یہ کہہ کر بند کردیا کہ ایک ہی آفس سے دو وزارتین چلائی جاسکتی ہیں اضافی بوجھ کیوں قوم کے سرمائے پر ڈالا جائے ، پہلے روز ہی منشیات کے حوالے سے جامع پالیسی بنانے ، امن و امان کی صورتحال کو کاروباری افراد کے لیے ساز گار بنانے ، ڈالر کی سمگلنگ کو روکنے اور پاسپورٹ کے حصول کو آسان بنانے ، ایف آئی اے کو انٹرنیشل سٹینڈر کا ادارہ بنانے جیسے انقلابی اقدامات کا اعلان کیا امید ہے کہ بطور وزیر داخلہ وہ اُن تمام چیلنجز کو حل کرنے کے لیے شبانہ روزکام کریں گے جس کی امید قوم کواُن سے ہے ۔
باقی رہا بیرسٹر گوہر جیسے افراد تو کام کرنے والے افراد ہمیشہ اس کہاوت کو مدنظر رکھتے ہیں ، جو عرفی شیرازی نے فارسی شعر میں یوں بیان کی 
عرفی تو می اندیش ز غوغائے رقیباں 
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
اس شعر کا مطلب ہے کہ 
"عرفی دشمن کی الزام تراشی اور شور و غوغا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جس طرح کتوں کا بھونکنا درویشوں کے رزق کو کم نہیں کرسکتا "

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

Amir Raza Khan

عامر رضا خان سٹی نیوز نیٹ ورک میں 2008 سے بطور سینئر صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے۔ 26 سالہ صحافتی کیریر مٰیں کھیل ،سیاست، اور سماجی شعبوں پر تجربہ کار صلاحیتوں سے عوامی راے کو اجاگر کررہے ہیں