سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ برقرار، فل کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

Oct 11, 2023 | 12:14:PM
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ برقرار، فل کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا گیا، فل کورٹ نے پارلیمنٹ کے بنائے قانون کیخلاف تمام درخواستیں مسترد کر دیں ۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی جانب سے کیس کا فیصلہ سنایا گیا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے درست قانون سازی کی ،  فیصلے کا اطلاق ماضی کی اپیلوں سے نہیں ہوگا، وکلا نے اچھی معاونت کی، شاید لائیو کوریج کو جاری رکھیں،فیصلہ ٹیکنیکل تھا اس لئے تاخیر ہوئی، 18 ستمبر کو یہ درخواستیں دائر کی گئیں ،فیصلے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی،سپریم کورٹ نے 10 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا،سپریم کورٹ کے 5 ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،8 ججز نے اپیل کے حق کو پچھلی تاریخوں سے لاگو کرنے کی مخالفت کر دی ۔ 

چیف جسٹس آف پاکستانی کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی،عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کیا گیا، تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر  لیا،دلائل سننے کے بعد  چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  اتفاق رائے ہو گیا تو فیصلہ سنا دیں گے ورنہ فیصلہ محفوظ کر لیں گے ، بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔

چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ  کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاملے کا سکوپ بڑھانا نہیں چاہئے، ایک بار ہمیں ایک دوسرے کو کہہ لینے دیں آپ نے ٹھیک کیا ہے، دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے، ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت بہت سے مسائل ہیں، چالیس سال سے قانون سے وابستگی ہے کچھ غیر آئینی ہوا وہ ہم دیکھ لیں گے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت  میں کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا ،وقفے کے بعد اٹارنی جنرل  منصور عثمان اعوان نے دوبارہ دلائل  شروع کیے اور کہا کہ سٹیل مل کیس میں سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز میں مسائل بڑھے، ریکوڈک کیس میں بھی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ملک کو اربوں روپے نقصان ہوا، اٹارنی جنرل نے 184/3 کے تحت مقدمات اور ان کے نتائج کی تفصیل بیان کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ایکشن سے یہ سب ہوا، اٹارنی جنرل  نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے سٹیل مل کی نجکاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخودنوٹس لیا، ازخودنوٹس لیا تو سٹیل ملز منافع میں تھی، سوموٹو سے آج تک سٹیل ملز 206 ارب کا نقصان کر چکی ہے، جسٹس مظاہر نقوی  نے کہا کہ اس کارروئی کو سپریم کورٹ کیخلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا، سٹیل ملزم کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟ جسٹس عائشہ ملک  نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ 

ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔

جسٹس شاہد وحید نے  اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ مولوی تمیز الدین سے حدیبیہ تک سپریم کورٹ کو چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں؟جسٹس منیب اختر  نے مداخلت کی اور کہا کہ عدالت کا کون سا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں اس پر لوگ بات کرتے رہیں گے، آپ سے لیکچر سننے نہیں بیٹھے کہ کونسا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں،ماضی کے فیصلوں کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کو مداخلت کا اختیار مل گیا، چیف جسٹس  نے ساتھی وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں تنقید سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، کوئی اپنی دلیل بنانے کیلئے حقائق بتانا چاہتا ہے تو اسے سننا چاہیے، اٹارنی جنرل صرف ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں،اٹارنی جنرل کو بات پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ جن مقدمات میں نظرثانی پر فیصلہ ہوچکا کیا ان میں اپیل ممکن نہیں ہوگی؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی نظرثانی اور اپیل ایک ساتھ دائر کرے تو کیا ہوگا؟ 

اٹارنی جنرل  نے جواب دیا کہ نظرثانی خارج ہونے کے بعد اپیل دائر ہو توعدالت کیس کا جائزہ لے گی، چیف جسٹس  نے کہا کہ بھٹو کیس کی مثال دینا چاہوں گا، بھٹو کیس میں سزا ہوئی، نظرثانی میں اختلافی رائے دینے والوں نے بھی فیصلے کی حمایت کی، اگر اپیل کا حق ہوتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا، نظرثانی خارج ہونے سے اپیل کا حق ختم نہیں ہوتا، جسٹس مظاہر نقوی  نے کہا کہ بھٹو کیس سپریم کورٹ نے اپیل میں سنا تھا 184/3 میں نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔

اٹارنی جنرل  نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی، جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال کیا کہ ایک بار اگر سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا جائے تو ایکٹ کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟ اٹارنی جنرل  نے کہا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کے دائرے کو پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر  نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی پارلیمنٹ پر کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے سوال کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہوگا یا ماضی سے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتی ہے، پارلیمنٹ نے ایک اپیل دی ہے تو دوسری اور تیسری اپیل کیوں نہیں دے سکتی؟ 
چیف جسٹس پاکستان  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کل کو یہ ہوا تو عدالت دیکھ لے گی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میرا خیال ہے اس کا جواب اٹارنی جنرل کو دینا چاہئے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ آرٹیکل 185ٹو پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ میرا خیال ہے ان مقدمات کا حوالہ نہ دیں جو عدالت کے سامنے دوبارہ آ سکتے ہیں، جسٹس شاہد وحید  نے کہا کہ اس نکتے پر کیا کہیں گے کہ اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری تھی، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔

 جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ آرٹیکل 185 میں کیا پارلیمان تیسری اور چوتھی اپیل کا حق دے سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا فی الحال تو پہلی اپیل کا حق دیا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا کہ بات اپیل کے نمبر کی نہیں اصول کی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 185 میں ایک ہی اپیل کا ذکر ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے پھر سے کہا کہ میرا سوال بہت سادہ ہے جس کا جواب نہیں ملا۔
چیف جسٹس  نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ بنی تو دیگر عدالتوں سے اختیارات واپس لئے گئے تھے، اعلیٰ عدلیہ کے کچھ اختیارات لیکر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے، سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ مزید دیا جا رہا ہے، آمر نے اختیار واپس لیا تو سب خاموش ہوگئے، جسٹس مسرت ہلالی  بولے کہ چیف صاحب کا سوال ہوگیا ہے تو میرا سوال بھی لے لیں، اس کے بعد بولے کہ آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی پارلیمان ہی کر سکتی ہے، قانون میں وقت کیساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے، کیا قانون سازی کیلئے دو تہائی اکثریت ہونے کی شرط ختم نہیں ہوگئی؟ شاید آپ کے دلائل میں نے دے دیے ہیں۔

 جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ  ماضی میں منشیات کے مقدمات بھی شریعت کورٹ سنتی تھی،منشیات کے حوالے سے نیا قانون بنا تو اپیل ہائی کورٹ میں سنی جانے لگی، سادہ قانون سازی کے ذریعے شریعت کورٹ کا اختیار کم کیا گیا، سپریم کورٹ کا اختیار قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب آئین میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تو پارلیمنٹ کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے، جسٹس مسرت ہلالی پھر سے گویاں ہوئے کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ استعمال کر کے قانون سازی کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایکٹ میں مرضی کا وکیل بھی کرنے کا حق دیا گیا، نظر ثانی میں نیا وکیل آ کر سارے دلائل نئے دے گا، اس طرح نظر ثانی کی روح تو متاثر ہو گی، ایکٹ کی جز 6 کے تحت نیا وکیل کرنے سے  ریویو کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس مظاہر نقوی کے سوال کا جواب دیا کہ ایکٹ کا جُز 6 کو سامنے رکھ کر عدالت اپنے رولز میں ترمیم کر سکتی ہے، درخواست گزار عرفان صادق کے وکیل کے جواب الجواب دلائل جاری،وکیل حسن عرفان  نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ممکن نہیں، عوام، پارلیمان اور حکومت کی نیت ایک جیسی ممکن نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق عوام کی نمائندگی منتخب نمائندے کرینگے۔

 صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے جواب الجواب دلائل دیئے اور کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری عدالتیں ماضی میں مانتی رہی ہیں، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے میں عدالت کے اپیل اور آئینی دائرہ اختیار پر بحث ہوئی تھی،چیف جسٹس نے تمام فریقین کے دلائل سنے اور کیس کا فیصلہ محفوظ کر دیا اور کہا کہ اتفاق رائے ہوا تو فیصلہ سنا دیں گے نہ ہوا تو فیصلہ محفوظ۔

منگل کے روز کی سماعت