میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں،گالی گلوچ الگ بات ، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے:چیف جسٹس

Jan 29, 2024 | 12:35:PM
’ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے‘
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے۔ آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں۔انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ‏گالی گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے،‏اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں، مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔

سپریم کورٹ میں صحافیوں اور یوٹیوبرز کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا۔ ‏ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے، ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے، ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر ہم سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں، یہاں مٹی پاؤ نظام چل رہا ہے، جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔

’ارشد شریف کا کیس زیرالتوا ہے اسے بھی دیکھ لیا جائے‘

دورانِ سماعت ‏مطیع اللہ جان نے ارشد شریف قتل کیس کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہا کہ ‏مائے لارڈ ایک اسی نوعیت کا سنگین معاملہ بھی زیر التوا ہے اور وہ کیس شہید ارشد شریف کا ہے، اِس کیس کو بھی دیکھ لیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ارشد شریف کا کیس ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں،اس وقت کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کے کیس سے متصادم ہو، مطیع اللہ جان بولے کہ میڈیا پوری دنیا میں خود احتسابی اور اپنے ضابطہ اخلاق پر چلتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ میڈیا خود ضابطہ اخلاق بنانا چاہتا ہے تو بتائے کس کی مدد درکار ہے؟چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پریس ایسوسی ایشن کسی غلط خبر کی تردید کرتی ہے؟ ہتک عزت کا کیس ہو جائے تو 50 سال فیصلہ ہی نہیں ہوگا۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ‏گالی گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں، ‏اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں، مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جن صحافیوں کے خلاف تنقید پر نوٹس جاری ہوئے ہیں انہیں فوری واپس لیا جائے، صحافی اگر عدالتی فیصلوں ہر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔

’یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ‏سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ‏تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے لیے نوبل انعام جیتا، ملالہ کے ساتھ کیا کچھ ہوا لیکن زندہ بچ گئی مگر اب وہ پاکستان نہیں آسکتی۔چیف جسٹس  نے استفسار کیا کہ اِس مسئلے پر ہم کیوں بات نہیں کرتے؟ کیونکہ اُن کے پاس بندوق ہے اور ہمارے پاس صرف قلم، وہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کی بات کر رہی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواتین پولیو ڈراپس پلانے جاتی ہیں، انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچن کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے، تعلیم حاصل کرنے والی خواتین پر تشدد اور ان کے اسکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔ فتویٰ دے دیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتیں، فتویٰ دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا؟یہ سب صرف پاکستان میں ہوتا ہے اور کہیں نہیں۔

ضرور پڑھیں:سپریم کورٹ کا صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔