انتخابات ازخود نوٹس کیس : فیصلہ محفوظ ، کل گیارہ بجے سنایا جائے گا

Feb 28, 2023 | 10:43:AM
سپریم کورٹ کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی 90 روز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (امانت گشکوری)انتخابات ازخود نوٹس کیس :سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس میں تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تمام وکلا کا  شکریہ ادا کرتےہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔سیکرٹری ٹو چیف جسٹس نے کہا ہے کہ فیصلہ کل بروز بدھ دن گیارہ بجے سنایا جائے گا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ  دیا۔ چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ تمام جماعتیں پورے ملک میں انتخابات کرانے سے متعلق مشاورت کریں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انتخابات کی متفقہ تاریخ دی جائے، پی ڈی ایم کچھ پیچھے جائے اور تحریک انصاف کچھ آگے آئے، ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی۔

سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی 90 روز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے: سپریم کورٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے ؟ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں۔

عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔

 اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا جب ججز دستخط کر دیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں۔ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کر رہی ؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا۔

عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں۔ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ڈی ایم نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر پر اعتراض اٹھا دیا

جسٹس جمال نے ریمارکس میں کہا کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے۔ آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا۔ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کرینگے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا ؟ کیا وزیر اعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کےلیے ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔ الیکشن ہر صورت میں 90 روز میں ہونا ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔

وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہو سکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واضح کہا کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 روز کے لیے ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کے اختیارات تاریخ کے ساتھ وقع پذیر ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں:انتخابات از خود نوٹس: 4 ججز نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا ؟

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا کسی نے سیکشن 57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا ؟۔

 جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیارالیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائیگا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردار حتمی ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے، الیکشن پروگرام پر عمل کریں تو انتخابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں، پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو پوری ہورہی ہے، صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کےلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کے لئے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن با اختیار ہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے، آئین پر عملدرآمد ہر صورت میں ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا ؟ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون ؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 90 دن سے تاخیر کی عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں کریں کرینگے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کیلئے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کیلئے پارلیمنٹ آج قانون بنالے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سازی پر طعنہ ملتا ہے اسمبلی مکمل ہی نہیں، عدالت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا ہے، صدر مملکت نے کہہ دیا تاریخ میں دونگا، عدالت نے اس نکتے کو طے کرنا ہوگا، صدر مملکت کو کسی نے تاریخ دینے کا کہا بھی نہیں تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر وزیر اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری پوری کرتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 روز کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا الیکشن کمیشن کی انتخابات سے متعلق تیاری کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے، آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر کی ؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر سے مشاورت کے لئے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کو بتایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جو کرنا ہے کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی وزیر اعلی کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی، ہم نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر خیبرپختونخوا کے 31 جنوری کے خط کا کیا مطلب ہے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔ وکل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے پانچ رکنی لارجر بنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ زمینی حقائق دیکھ کر ہی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے، ایک نقطہ نظر ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرے، الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے، الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں، اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں، انتخابات کروانا لازم ہے، اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام جماعتیں پورے ملک میں انتخابات کرانے سے متعلق مشاورت کریں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انتخابات کی متفقہ تاریخ دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ڈی ایم کچھ پیچھے جائے اور تحریک انصاف کچھ آگے آئے، ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ 90 روز سے آگے الیکشن چلے گئے تو یہ روایت بن جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ حالات کے مطابق متفقہ تاریخ دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو، قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوے روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی اسے عدالت میں چیلنج کر دے گا، معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو اپنی قیادت سے ہدایات لینے کی مہلت دے دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی قائدین سے مشورہ کر کے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں، جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کی جائے، میرے پنچائیتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے، جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریق لچک دکھائے، اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جائے، قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئے گا۔

وکیل فاروق نائیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا سے مشاورت کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں، عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ عدالت نے سماعت میں 4 بجے تک وقفہ کر دیا۔