آزادی اظہار رائے پر پابندی نہ ہوتی تو یہ ملک نہ ٹوٹتا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ 

Feb 24, 2022 | 16:09:PM
 آزادی اظہار رائے پر پابندی نہ ہوتی تو یہ ملک نہ ٹوٹتا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ 
کیپشن: چیف جسٹس اطہرمن اللہ فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے اس قانون کو ڈریکونین قانون قرار دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کر دیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور پی ایف یو جے کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی اہم وکٹ گرا دی

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکس دیے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے، عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا، حکمران جماعت کی ایک رکن اسمبلی نے پڑوسی سے ماحولیاتی ایشو پر شکایت کی، ایف آئی اے نے اسے ہراساں کیا۔

 چیف جسٹس نے مزید کہ کہااس طرح کے قوانین سے کسی کی عزت نہیں بچتی، آپکو کیا ضرورت ہے کہ جوڈیشری کی ساکھ کی حفاظت کریں، جوڈیشری کی ساکھ اسکے فیصلوں سے محفوظ رہے گی۔لوگوں کا ہم پر اعتماد ہو گا تو پھر تنقید سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں یہ آرڈیننس اور ہتک عزت کو فوجداری قانون میں ڈالنا آئین سے متصادم ہیں۔اٹارنی جنرل صاحب آپ اپنے دلائل سے عدالت کو مطمئن کر لیں۔کوئی کیس نہیں جس میں گرفتاری کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں:سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر ریکارڈ اضافہ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیدیں آئندہ سماعت پر دلائل دونگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس دوران اگر ایف آئی اے نے کسی کو گرفتار کیا تو پھر کیا ہو گا۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر میں اس کا دفاع نہیں کر سکوں گا۔

اس عدالت نے ایف آئی اے کو گرفتاری سے روکا ہے آرڈر میں توسیع کر دیں، اٹارنی جنرل
یہ بھی پڑھیں:روسی صدر سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کا شیڈول تبدیل