کابل کو اسلحہ کی فراہمی۔۔بھارت غیر جانب دار رہے۔۔افغان طالبان 

Jul 17, 2021 | 19:04:PM
 کابل کو اسلحہ کی فراہمی۔۔بھارت غیر جانب دار رہے۔۔افغان طالبان 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (نیوز ایجنسی)افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کسی ملک میں بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک میں برآمد نہیں کریں گے۔
ایک انٹرویو میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ ‘ہم نے جو امن معاہدہ کیا ہے اس کی رو سے تمام افواج افغانستان سے نکلیں گی اور کابل کے سیاسی فریقین سے امن مذاکرات ہوں گے اور اس کےلئے دوحہ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود کابل حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور ہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کے اضلاع کو قبضے میں لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا 20 سال میں ممکن نہیں تھا اور اس وقت بھی ممکن نہیں ہے لیکن کابل انتظامیہ اور اس کے حامی ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم عسکری قبضے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ‘کابل انتظامیہ کی جو بھی فورسز ہم سے رابطہ کرتی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلحے کے ساتھ ہمارے پاس آئیں، تو ظاہر ہے ہم خوش آمدید کہتے ہیں، اگر ہماری فورسز کابل انتظامیہ کے پاس جاتیں تو وہ بھی ایسا ہی کرتے۔ انہوں نے کہا کہ لڑائی اور جانی نقصان ابھی کم ہے لیکن ہماری فتوحات اور ہمارے قبضے میں آنے والے اضلاع کی تعداد زیادہ ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئندہ جو بھی اسلامی حکومت بنے گی اس کے لئے مسلح افواج اور پولیس کی ضرورت ہے اور اس کو ہم برقرار رکھیں گے۔ 
مقامی قبائل کی جانب سے مزاحمت اور امن کے قیام کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں ایسے قبائل کے بارے میں نہیں سنا ہے شاید ہمارے مخالفین نے ایسا شوشا چھوڑا ہو، سارے قبائلی اور عمائدین ہمارے ساتھ تھے اور ساتھ ہیں، اسی لئے ہم نے 20 سال تک ایک سپر پاور اور اس کے ساتھ 54 ممالک کے خلاف مزاحمت کی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے اپنے لوگ ساتھ نہ ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ مزاحمت کی جاتی اور اس کی ٹیکنالوجی اور اسلحے کے مقابلے میں کیسے ہماری مزاحمت کامیاب ہوتی۔
ترجمان نے کہا کہ ابھی ہم قبضے اور کابل انتظامیہ کے تسلط کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہم نے ننگر ہار، کنڑ ، فریاب، زابل اور دوسرے علاقوں سے داعش کو ختم کیا ہے، اب افغانستان میں کسی بھی صوبے میں داعش نہیں ہے اور جو تھے وہ کابل انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں، ان کے جنگجو یا قیادت، دونوں ہی کابل انتظامیہ کے پاس ہے۔داعش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ‘کابل انتظامیہ کی جیلوں میں یا پھر گیسٹ ہاو¿سز میں ہیں، جب افغانستان میں لڑائی بھی نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ داعش دوبارہ افغانستان میں آئے اور اپنے اثر و نفوذ کو قائم کرے تو ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا شاید دوسرے ممالک کا ایسا پروگرام ہوتو انشااللہ ہم اس کو بھی ناکام بنا دیں گے اور افغانستان میں داعش یا دوسرے گروپس کو جگہ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان ایک فورس ہے، سارے بارڈر ہمارے قبضے میں ہیں اور فعال ہیں، ہم نے 193 اضلاع قبضے میں لئے ہیں، اس میں فعال ہیں، 65 اضلاع پہلے ہی ہمارے پاس تھے اور اس وقت افغانستان کے تقریباً 260 اضلاع ہمارے قبضے میں ہیں اور ان سب میں ایک حکم ہمارے سپریم لیڈر کا چل رہا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی واضح ہے کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہو۔انہوں نے کہا کہ جو بھی دھڑا، گروپ یا انفرادی شہری ہو اس کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے، ہم نہیں چاہتے ہیں کہ جب ایک افغان اسلامی حکومت بنائے پھر دوسرے دھڑوں کو بھی جگہ دے دیں کہ افغانستان دوبارہ غیر مستحکم ہوجائے تو یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور ہم یہ چاہتے بھی نہیں۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ایسا ممکن بھی نہیں ہے کہ ایک طرف ہم چاہتے ہیں سارے ممالک سے تعلقات رکھیں اور کسی کو افغانستان کی سرزمین میں ایسا کرنے کی اجازت دیں، اس لئے کسی کو خدشے کی ضرورت نہیں ہے۔بھارتی عہدیداروں سے پالیسی اور ملاقات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں ہوئی، بھارت کابل انتظامیہ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں لہٰذا بھارت اس مسئلے میں غیر جانب دار رہے، یہ اس کےلئے بہتر ہے۔
 انہوں نے کہا کہ ہم مستقبل میں بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات رکھیں گے اس کا فیصلہ جو بھی اسلامی حکومت آئے گی وہ اس کی خارجہ پالیسی پر منحصر ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ہماری کسی ملک کے ساتھ لڑائی نہیں ہے، ہماری لڑائی ہمارے ملک پر ہونے والے قبضے کےخلاف تھی، پہلے بھی ایسے قبضے کےخلاف اور اب سپر پاور امریکا آیا اور ہمارے ملک پر قبضہ کیا اور ہماری آزاد اور معمول کی زندگی چھین لی اور ہمارے حقوق پر قبضہ کیا تو پھر ہم نے ملک میں اس کےخلاف لڑائی کی۔۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی سفارت خانوں اور سفیروں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی اور ابھی جو کر رہے ہیں وہ ہمارے تعاون سے کر رہے ہیں، این جی اوز کے محکمے کا میں سربراہ رہا ہوں اور ہماری ان کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے اور وہ جب کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ہمیں آگاہ کرتے ہیں، گاڑی کا نمبر اور ڈرائیور کا نام فراہم کرتے ہیں اور گاڑیوں میں لوڈ ہونے والے سامان کے بارے میں بتاتے ہیں، جس کے بعد ہم صوبائی گورنرز کو بتاتے ہیں کہ فلاں گاڑی کو نہ چھیڑیں اور یہ گزشتہ 20 سال سے ہو رہا ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ ہمارے قبضے میں جو اضلاع آئے ہیں، ان میں اسکول، ہائی اسکول، یونیورسٹیاں بھی ہیں اور وہاں خواتین اس وقت تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہماری یہی عملی پالیسی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اقدار کے مطابق حجاب ہوگا جو کئی اسلامی ممالک ہے ۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو سائنس اور مذہبی تعلیم دونوں کی ضرورت ہے، جو دینی تعلیم چاہتی ہیں اور جو خواتین پرائمری سے پی ایچ ڈی تک سہولیات ہونی چاہئے، جو پڑھنا چاہتی ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے مخالفین نے بہت پروپیگنڈا کیا ہے، خواتین کے نوکری پر ہمارا کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم ہم نے حجاب کی بات کی ہے۔
آزاد صحافت اور بھارتی صحافی کی اسپن بولدک میں ہلاکت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کاہ کہ ہم نے صحافیوں سے کہا ہے جہاں بھی جائیں ہمیں آگاہ کریں لیکن جو صحافی کابل انتظامیہ کی فورسز کے ساتھ مل کر فوجیوں کی طرح جارہے ہیں، وہ ان کے کام ہیں۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو ہم سہولیات فراہم کرتے ہیں اور کوئی مشکل نہیں ہے، دوسرا آزادی اظہار اسلامی قوانین کے خلاف نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں ضروری ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہوگی تو پھر آمریت سامنے آجائے گی۔ افغانستان کے شہریوں کی ہجرت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام شہریوں کو اعلان کیا ہے کہ یہ ان کا ملک ہے، اس ملک کی تعمیر نو میں حصہ لیں، اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں، اس کی سلامتی کو برقرار رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ جتنا جلدی ہوسکے، افغانستان میں مسئلے کا پرامن حل نکلے، لیکن اس کے باوجود کوئی جارہا ہے تو یہ ا س کی مرضی ہے، ہم نہیں چاہتے وہ جائیں کیونکہ یہ ان کا ملک ہے ۔