ریلیزسے پہلے ہی شاہ رخ خان کی پٹھان تنقید کی زد میں آگئی

Dec 17, 2022 | 14:17:PM
فائل فوٹو
کیپشن: بالی ووڈ میں بائیکاٹ اور دھمکیوں کا دور فلم پٹھان تنقید کی زد میں
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک )آج کل ہر بڑی فلم کا ریلیز سے پہلے ایک بڑا تنازع پیدا ہونا معمول بن چکا ہے، اب چاہے وہ عامر خان کی ’لال سنگھ چڈھا‘ ہو یا دپیکا کی ’پدماوت‘ یا پھر رنبیر کپور کی ’برہماسترہ‘ اور عامر کی فلم ’پی کے‘ اِن سب سے متعلق کوئی نا کوئی تنازع ضرور پیدا ہوا۔مگر اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے یہ بالی ووڈ میں بائیکاٹ اور دھمکیوں کا سیزن ہے۔

اگر فلموں پر  بائیکاٹ کی دھمکیوں کو دیکھا جائے تو اس میں ہمیشہ ہی بھگتوں کی فوج کی خدمات کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہو گی۔ کہیں ہندو جذبات مجروح ہونے کی بات کہی گئی تو کہیں بھگوا رنگ پر ہنگامہ ہوا۔

شاہ رخ خان کی نئی فلم ’پٹھان‘ کے گانے ’بے شرم رنگ‘ کی ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پر پٹھانوں، مسلمانوں اور بھگوا رنگ کو لے کر جو طوفانِ بدتمیزی شروع ہوا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ اس ہنگامے سے فلم کی تشہیر تو ہو رہی ہے لیکن جس طرح کی ذہینیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔

بالی ووڈ سٹار شاہ رخ خان پورے پانچ سال بعد بڑے پردے پر واپسی کر رہے ہیں اور شنید تھی اُن کی یہ واپسی زبردست ہو گی مگر یہ اتنی دھماکہ دار ہو گی اس کا اندازہ شاید کم ہی لوگوں کو تھا۔اب چونکہ بھگوا رنگ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جاگیر کے طور پر دیکھا جانے لگا تو اس پر سیاست تو بنتی ہے۔

اس مذہبی سیاست میں نہ صرف دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں بلکہ سادھو اور سنت بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور فلم کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ جھولی پھیلا پھیلا کر بالی ووڈ کو کوس رہے ہیں۔

بالی ووڈ کے شہنشاہ کہے جانے والے امیتابھ بچن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زیادہ تر موضوعات پر خاموشی ہی اختیار کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔اب چاہے وہ فلموں کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو یا پھر سینسر شپ کا۔ لیکن اس ہفتے کولکتہ میں ہونے والے 28 ویں انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں بطور چیف گیسٹ بولتے ہوئے انھوں نے فلموں میں شہری آزادی اور اظہار آزادی پر اپنی قیمتی رائے پیش کی۔انہوں نے کہا کہ’’ شہری آزادیوں اور آزادی اظہار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ’’ 1952 کے سنیماٹوگراف ایکٹ نے سینسرشپ کے ڈھانچے کو متعین کیا جیسا کہ آج اسے فلم سرٹیفیکیشن بورڈ (سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن) نے برقرار رکھا ہے۔ لیکن اب بھی شہری آزادیوں اور آزادی اظہار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’ابتدائی دور سے ہی سنیما کے مواد میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ افسانوی فلموں اور سوشلسٹ سینما سے لے کر ’اینگری ینگ مین‘ کی آمد تک جو کہ افسانوی جنس پرستی میں جکڑے ہوئے ہیں، اخلاقی پولیسنگ کے ساتھ ساتھ اس سینما نے وقت کی سیاست اور سماجی موضوعات پر سامعین کو پکڑ کر رکھا ہے۔‘