بھارت: کرناٹک انتخابات میں حجاب پر پابندی لگانے والے بی جے پی کے وزیر تعلیم کو شکست

May 14, 2023 | 11:58:AM
بھارت: کرناٹک انتخابات میں حجاب پر پابندی لگانے والے بی جے پی کے وزیر تعلیم کو شکست
کیپشن: حجاب تنازعے سے لے کر سکولوں کے نصاب میں ’اپنے نظریات‘ شامل کرنے کے الزام تک، ناگیش نہ صرف ریاست میں ہر مذہبی تنازعے کا محور رہے ہیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) 2021ء میں بھارتی ریاست کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی وزیر تعلیم بی سی ناگیش سرخیوں میں رہے۔
حجاب تنازعے سے لے کر سکولوں کے نصاب میں ’اپنے نظریات‘ شامل کرنے کے الزام تک، ناگیش نہ صرف ریاست میں ہر مذہبی تنازعے کا محور رہے ہیں بلکہ اپوزیشن کی تمام تر تنقید کا ہدف بھی رہے ہیں۔

ہفتے کے روز بی سی ناگیش ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے تاہم اس مرتبہ وجہ تھی ان کی ریاستی اسمبلی کی سیٹ کے انتخابات میں شکست۔ انہیں ضلع تمکر سے اپنے مخالف کانگریسی امیدوار کے ہاتھوں 17 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی۔

وہ پہلی بار 2008ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2013ء میں انہیں شکست ہوئی اور 2018ء میں 25 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے دوبارہ منتخب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے عمران خان کے بھارت میں خوب چرچے
حجاب تنازعے کے دوران بی سی ناگیش کو کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی لگا کر مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے ’محروم‘ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے تاہم سابق وزیر تعلیم ہمیشہ سے ہی تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے حامی رہے ہیں۔
ناگیش اور ان کی انتظامیہ کو آزادی پسند بھگت سنگھ اور سماجی مصلح نارائن گرو پر مشتمل اسباق کو سکولوں کے نصاب سے نکالنے کیلئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی جگہ آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگیوار اور دائیں بازو کے نظریے سے وابستہ دیگر افراد کی تقاریروں کو شامل کیا گیا۔
تنقید کے بعد بھگت سنگھ اور نارائن گرو پر مشتمل اسباق کو دوبارہ شامل کر لیا گیا لیکن ہیڈگیوار کی تقریریں بھی برقرار رکھی گئیں۔

بہت سے لوگ اسے بی جے پی کی بجائے نریندر مودی کی شکست بتا رہے ہیں۔

روشنی کے آر رائے نامی ایک صارف نے نریندر مودی کے ذریعے اٹھائے جانے والے معاملوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’وہ ہندو مسلم لے آئے، وہ پاکستان (کا ذکر) لے آئے، انھوں نے وکٹم کارڈ کھیلا، انھوں نے جیتنے کیلئے سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے۔

’اس کے باوجود وہ 75 سیٹ سے اوپر نہیں جا رہے ہیں۔ یہ مودی کی ہار ہے۔ یہ الیکشن ان کے چہرے پر لڑا گیا تھا۔‘

جے اے ميگرے نامی صارف نے ایک خاکروب کی ویڈیو ڈالتے ہوئے لکھا، ’کنول کو کامیابی کے ساتھ ہٹا دیا گيا۔ جشن منانے کا وقت ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس فاتح‘۔

واضح رہے کہ کنول بی جے پی کا انتخابی نشان ہے اور اس انتخاب میں آپریشن کنول کا بھی ذکر ہوا تھا۔

اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ایک پیغام گردش کر رہا ہے جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گذشتہ چھ برسوں میں بی جے پی کو 19 ریاستوں میں ناکامی ملی ہے اور جہاں وہ حکومت میں ہے وہاں ایک چھوٹے پارٹنر کی حیثیت سے لیکن انڈین میڈیا میں ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سارے ملک میں مسٹر مودی ہی جیت رہے ہیں۔

جالیٹیشین نامی ایک صارف نے لکھا، ’میں سارے ساؤتھ انڈیا کا نفرت سے پاک ہونے پر احترام کرتا ہوں۔ کرناٹک والوں نے بی جے پی کو اس کی جگہ دکھا دی، اب ہماری باری ہے کہ ہم بی جے پی کو 2024ء میں رد کر دیں‘۔

کرناٹک میں اس سے قبل بھی کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن سیٹیں بی جے پی کی زیادہ تھیں تو اس نے حکومت سازی کی تھی۔

موجودہ اسمبلی میں حکمراں بی جے پی کے 116 ایم ایل اے ہیں، کانگریس کے 69، جے ڈی ایس کے 29، بی ایس پی کے ایک اور دو آزاد ہیں۔ چھ نشستیں خالی ہیں جبکہ ایک سپیکر کی نشست ہے۔

Shamroze Khan

شمروز خان صحافت کے طالب علم ہیں اور بطور سب ایڈیٹر (ویب) 24 نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔ سماجی مسائل، موضوعات اور حقائق پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔