پاکستان بدترین موسمیاتی اثرات کا شکار، عالمی برادری مدد کرے، وزیراعظم 

Oct 08, 2022 | 00:19:AM
وزیراعظم شہبازشریف، موسمیاتی رسک انڈیکس، منفی اثرات کے خطرات
کیپشن: وزیراعظم شہباز شریف، فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ریزیلنس ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاہے کہ 8 اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام، جنہیں قدرتی آفات کی وجہ سے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے "نیشنل ریزیلنس ڈے (National Resilience Day) " کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن ایک یاد دہانی ہے کہ ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جسے قدرتی آفات کے حوالے سے خطرات کا سامنا ہے۔ موسمیاتی رسک انڈیکس میں پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے خطرات سے دوچار 7 واں ملک ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستان نے زلزلوں، سیلابوں، GLOF واقعات، طوفانی و موسلادھار بارشوں (Cloud Bursts)، اور گرمی کی لہروں/جنگل میں لگنے والی آگ کی صورت میں متعدد قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں ڈالرز کا مالی نقصان بھی ہوا۔
وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہاہے کہ اس سال پاکستان ایک بار پھر سیلاب کی صورت میں موسمیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں 1696 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، 12867 افراد زخمی اور 3 کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ اب تک دس لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ چالیس لاکھ ایکڑ سے زائد فصلوں کو مکمل نقصان پہنچا ہے۔ مواصلاتی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے کچھ حصے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان نے کبھی اس پیمانے کی تباہی کا سامنا نہیں کیا۔


وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہناتھا کہ وفاقی حکومت،صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مالی، انتظامی اور تنظیمی سمیت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ صوبائی حکومتوں کی درخواست پر پاک فوج کو ریسکیو، ریلیف اور دیگر آفات سے متعلق سرگرمیوں میں مدد کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے۔ آفت زدہ علاقوں میں خوراک، رہائش اور طبی امداد کے علاوہ BISP کے ذریعے 25000 روپے فی گھرانہ وزیرِ اعظم فلڈ ریلیف کیش پروگرام کے تحت فراہم کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے اندرون و بیرون ملک رہنے والے شہری ، سول سوسائٹی، مخیر حضرات، انسانی ہمدردی کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کی ایجنسیاں، این جی اوز، آئی این جی اوز، تعلیمی ادارے اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کے لیے تعریف کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی ملک تنہا اتنے بڑے پیمانے کی تباہی سے نہیں نبٹ سکتا۔


وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں حالیہ قدرتی آفت کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے ہوئے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جناب انتونیو گوٹیرس نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا بروقت، انتہائی اہم دورہ کیا اور متاثرین سیلاب سے ملاقات کی۔ اقومِ متحدہ کے سیکٹری جنرل نے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی۔ اس کے بعد سے مختلف مندوبین نے صورتحال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کئی دو طرفہ اور کثیر جہتی دورے کیے ہیں۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور دوست ممالک نے امدادی سامان کی فراہمی شروع کردی ہے۔ ہم ان کی یکجہتی اور حمایت کے لیے تہہ دل سے شکرگزار ہیں۔
تاہم، چونکہ تباہی کا پیمانہ بہت وسیع ہے اسی لیے سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی نکاسی میں وقت لگے گا۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں، خوراک کی کمی اور آئندہ سردی کا شدید موسم ایسے چیلنجز ہیں جن کے لیے پاکستانی قوم اور حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی جانب سے خاطر خواہ اور مستقل مدد کی ضرورت ہوگی۔ میں اس موقع پر کہونگا گا کہ آج پاکستان جن بدترین موسمیاتی اثرات کا شکار ہے وہ اس کی اپنی تخلیق نہیں ہے بلکہ گلوبل گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے، جس میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ لہٰذا عالمی برادری کو چاہئیے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کی بحالی اور تعمیر نو میں پاکستان کی مدد کرے۔


ان کاکہناتھا کہ پاکستانی عوام نے بلند حوصلے کے ساتھ قدرتی آفات کا سامناکیا ہے . میں اپنی قوم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بروقت بحالی، تعمیر نو اور معیشت کی بحالی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔


انہوں نے کہاکہ پاکستان کے قدرتی آفات کے خطرات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے سنگین مضمرات کا ادراک رکھتے ہوئے، حکومت ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کی استعداد میں اضافہ، اس موضوع پر ضروری قانون سازی، خطرات کے مطابق گورننس کو فروغ دینے، مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر موافقت (adaptation) کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سب تعاون سے ہی اس مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔