پاکستان ریلویز کی جدید بوگیاں متنازعہ کیوں ہوگئیں؟

Jan 05, 2023 | 11:14:AM
محکمہ ریلوے نے چین سے درآمد کردہ بوگیاں سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نئی کوچز مکمل فٹ اور ٹریک پر چلنے کیلیے تیار ہیں
کیپشن: پاکستان ریلویز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(طیب سیف) پاکستان مسلم لیگ نواز کے گزشتہ دور حکومت میں ریلوے کی ذمہ داری خواجہ سعد رفیق کو دی گئی جنہوں نے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور بند پڑیں ٹرینوں کو چلانے کے لیے پالیسی وضع کی، جس میں پہلے سے موجود خراب ہوئے ٹرین انجنز کو ٹھیک کروانے، نئے انجنز خریدنے کے ساتھ ساتھ نئی بوگیاں خریدنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جسے ریلوے کے پریمیم سروس میں چلایا جانا تھا۔

 ریلوے نے 230 بوگیوں کی سمری تیار کی اور خریداری کے لئے چین کا انتخاب کیا گیا، جس کا ابتدائی معاہدہ 2017-18 میں ہوا، پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت میں معاہدہ سست روی کا شکار ہوا اور حتمی دستخط جو ایک سال بعد ہونے تھے، وہ 2020-21 میں ہوئے اور چین میں جدید کوچز بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ، جس کی اہم شرائط میں ٹیکنالوجی کو پاکستان منتقل کرنا، عملہ کی تربیت اور براڈ گیج پر بوگیاں تیار کرنا شامل تھا۔

پوری دنیا میں براڈ گیج صرف پاکستان، بھارت اور بنگہ دیش میں استعمال ہوتی ہے، پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد کوچز کے معاہدہ کی ایک دفعہ پھر پیروی کی گئی اور 140 ملین ڈالر کی لاگت سے کل 46 کوچز چین میں تیار کر کے دسمبر 2022 میں پاکستان بھیج دی گئیں جبکہ باقی 184 بوگیاں پاکستان ریلوے، چائینز ٹینکالوجی اور تربیت کی بدولت پاکستان ریلوے کیرج فیکٹری میں تیار کرے گی، جو 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ریلوے نے چین سے 820 جدید مال ویگنز امپورٹ کرنے کا معاہدہ بھی کیا، جس کے تحت 200 تیز رفتار ویگنز چین میں باقی ماندہ پاکستان میں تیار کی جائے گی۔

 بوگیوں کے پاکستان آنے پر ریلوے نے اسے گرین لائن ٹرین کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا جو اسلام آباد سے کراچی روٹ پر براستہ لاہور جاتی ہے۔ گرین لائن میں بزنس، اے سی سٹینڈرڈ کلاس شامل تھی۔ بوگیوں کو باقاعدہ ٹریک پر لانے سے پہلے ان کی پاکستان کے ٹریک پر ٹیسٹنگ کی گئی، جس میں تمام بوگیاں فٹ قرار دی گئی جبکہ مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر اس ٹیسٹنگ کو ناکام ثابت کیا گیا، ان بوگیوں کو پاکستانی سسٹم کے لیے ناکارہ اور خزانے پر بوجھ قرار دیا گیا۔

جس پر فورا وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پریس کانفرنس کر کے مکمل تردید کی اور ساتھ ہی سی ای او ریلوے سلمان صادق شیخ نے بھی افواہوں کی تردید کر دی اور کہا کہ تمام بوگیوں کی دو سالہ گارنٹی ہے اور اس کی مرمت کے اخراجات چین کی کمپنی ادا کرے گی جبکہ پہلے 6 ماہ ان بوگیوں کو آپریٹ بھی چینی انجینرز کریں گے، جس کے بعد مکمل سسٹم پاکستان کو سونپا جائے گا اور پاکستان میں جدید بوگیاں بنانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

بوگیوں کے 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر وزیر ریلوے سعد رفیق کا کہنا تھا ہمارا ٹریک ابھی اتنی رفتار پر ٹرین سروس چلانے کا اہل نہیں ہے مگر جیسے ہی ایم ایل ون منصوبے کے تحت تمام ٹریک اپگریڈ ہو جائے گا، اس کے ساتھ ہی یہ بوگیاں مکمل رفتار کے ساتھ چلنا شروع ہو جائیں گی، ان تمام بوگیوں کو مستقبل کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر تیار کروایا گیا اور آرڈر کیا گیا تھا۔