انتخابات کیس؛ صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری دیا

Nov 04, 2023 | 22:33:PM
انتخابات کیس؛ صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری دیا
کیپشن: سپریم کورٹ، فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری)سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ،10 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔فیصلے میں کہا گیاہے کہ تحریک عدم اعتماد کیخلاف کیس میں ایک جج نے لکھا کہ صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، معزز جج نے صدر مملکت کیخلاف غداری کی کارروائی کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہاہے کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 8 فروری کو انتخابات کرانے پر اتفاق ہوا،الیکشن کمیشن کے مطابق 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہوجائے گا،حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن پروگرام کا اعلان کیا جائے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اٹارنی جنرل کی کوشش قابل ستائش ہے،اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونے چاہیں تھے،ساتویں مردم شماری کے باعث انتخابات90 روز میں کرانا ممکن نہیں تھا،مشترکہ مفادات کونسل کو نئی مردم شماری کی منظوری دینے کیلئے 4 سال لگ گئے۔
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ صدر کا 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ غیر آئینی تھا،وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا آئین میں درج ہے،آئین واضح ہے کہ ممبران اسمبلی کی اکثریت تحریک عدم اعتماد منظور کر سکتی ہے،تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد وزیر اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نہیں دے سکتے،صدر کی جانب سے 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا،سپریم کورٹ نے سیاسی بحران کے پیش نظر از خود نوٹس لیا،سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیاہے کہ تحریک عدم اعتماد کیخلاف کیس میں ایک جج نے لکھا کہ صدر کا اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، معزز جج نے صدر مملکت کیخلاف غداری کی کارروائی کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت میڈیا کے کردار کو سراہتی ہے،آئین کا آرٹیکل 19 میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے،کچھ لوگوں نے اس آزادی کو غلط معلومات اور جھوٹا بیانیہ پھیلانے کا لائسنس سمجھ لیا ہے،جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے میڈیا پر جھوٹا بیانہ بنایا جاتا ہے،پیمرا کا قانون ایسے مواد کی نشریات سے روکتا ہے جو لوگوں کو اکسائے،سپریم کورٹ ان صحافیوں کو سراہتی ہے جو دیانتداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق درخواستوں میں صدر کو فریق بنایا گیا،انتخابات سے متعلق ایک درخواست میں صدر مملکت کی ٹویٹ کا ذکر ہے،اگر صدر کا انتخابات بارے سوشل میڈیا پر پیغام درست ہے تو اس سے سوالات جنم لیتے ہیں، اگر پیغام صدر مملکت کا ہی ہے تو کیا ملک کو سوشل میڈیا سے چلایا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ جمہوریت پر اعتماد کی کمی سے عوام کی شمولیت کیساتھ ووٹر ٹرن آوٹ کم ہوتا ہے،یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے،یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی اور پرائیویسی کے حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں،یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق خطرے میں پڑتے ہیں،یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے،غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سچائی کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی ستائش کرتی ہے،معاملے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اردو میں بھی ترجمہ جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا،صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آگئی،آئین اور قانون میں عدالت کے پاس الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں،صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا،صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہئے جو آئین کی منشا ہے،آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے،کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہونگے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہاکہ صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی،پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا،کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی۔
عدالت نے کہاکہ آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی،آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے،صدر،چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ارکان آئین کے تحت اپنے حلف کے پابند ہیں،آئین پاکستان کو پچاس سال ہوچکے ہیں،کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں،سپریم کورٹ نے کہاکہ آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں،آئین پر شب خون مارنے سے سیکھنا ہوگا کہ اس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے،وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں،صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا، نوٹیفکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے،ایڈوکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں۔
عدالت نے کہاکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں یقین بنائیں کہ انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہو،سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔