عوام حقوق سے محروم،ملک کو  تباہ کیا جا رہا ہے:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

Feb 04, 2021 | 15:38:PM
 عوام حقوق سے محروم،ملک کو  تباہ کیا جا رہا ہے:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز)سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق  بلدیاتی انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی جس میں  اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مردم شماری 2017 میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹی فیکشن جاری نہ ہو سکا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا2017 کے بعد سب سو گئے تھے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں،  مردم شماری پر اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنا دی ہے، سندھ میں 5 فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔ مردم شماری کے نتائج پر ایم کیو ایم کے بھی اعتراضات تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کا نام نہ لیں یہ آئینی معاملہ ہے، کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا؟ 2017 سے  2021  تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہو سکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جا رہا ہے؟ یہ تو روزانہ کے معاملات ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس تو 2 سے6 روز میں آجاتا ہے  یہ ترجیحات کا ایشو نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین کون ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین وزیراعظم ہوتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نے اجلاس بلایا تھا لیکن کسی وجہ سے نہیں ہو سکا۔ 

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کر دیتے ہیں، پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کر دیا۔ پنجاب حکومت کی بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کی کوئی وجہ تو ہو گی، مارشل لاء دور میں مقامی حکومتیں تحلیل ہوتی تھیں لیکن جمہوریت میں ایسانہیں سنا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا  پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون بنا دیا گیا ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے، ملک میں میڈیا کو کیسے کنٹرول کیا جا رہا ہے، ملک میں کیسے اصل صحافیوں کو باہر پھینکا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے کیونکہ جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہوتا ہے، صبح لگائے گئے پودےکو کیا شام کو اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جڑ کتنی مضبوط ہوئی؟جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ججز کو ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورتحال نہیں ہے، کب تک خاموش رہیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جا رہا ہے، بلدیاتی حکومت کو ختم کر کے پنجاب حکومت نے آئین کی واضح خلاف ورزی کی، ایسے تو اپنی مرضی کی حکومت آنے تک آپ حکومتوں کو ختم کرتے رہیں گے، جمہوریت کھوئی تو آدھا ملک بھی گیا، میڈیا والے پٹ رہے ہیں، ڈیفنس میں رہنے والوں کے ایشو نہیں، کچی آبادی والوں کے مسائل ہوتے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ خود کو نہ سدھارا تو وقت نکل جائے گا، لوگ بددعائیں دے رہے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا پنجاب کا حال مشرقی پاکستان والا کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے اخراجات سے ڈراتا ہے، کہتا ہے الیکشن پر 18 ارب خرچہ آئے گا، میں نے حساب لگایا تو یہ خرچ 36 اراکان اسمبلی کو دیئے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے برابر ہے  یہ عوام کا پیسہ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مردم شماری کا ایشو ہے تو دوبارہ کروا لیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی مردم شماری پر فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہو گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب ہاں یا نہ میں جواب دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس صاحب، ہاں یا نہ کے علاوہ کوئی آپشن دیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمرہ عدالت میں موجود میڈیا والوں سے ریفرنڈم کروالیں، میڈیا والے ہاتھ کھڑا کریں کہ کیا میڈیا آزاد ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوال پر کسی صحافی ہاتھ کھڑا نہیں کیاجس پر جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ وہ صحافی ہاتھ کھڑا کریں جو سمجھتے ہیں کہ ملک میں آزادی صحافت موجود ہے، اس پر بھی کسی صحافی نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر پابندی لگانے والے مجرم ہیں، ان کو جیل میں ہونا چاہیے، ہمارا آئین میڈیا کی آزادی کا ضامن ہے، میڈیا کو کنٹرول کرکے اپنی تعریف سن کر خوش ہوتے رہتے ہیں، اپنی تعریفیں سن کر خوش ہونے والوں کو ماہرنفسیات کے پاس جانا چاہیے۔