خدانخواستہ کیا مذاکرات کا موقع بھی ضائع؟

احمد منصور

May 03, 2023 | 15:27:PM
خدانخواستہ کیا مذاکرات کا موقع بھی ضائع؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24 News Creative
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

دو مئی کی شام، عین اس وقت جب پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر چیئرمین سینٹ کی میزبانی میں حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹیاں تیسری مرتبہ بات چیت کر رہی تھیں تو پارلیمنٹ کے باہر ایک چھوٹی مگر بڑی سوچ رکھنے والی سیاسی جماعت پاکستان عوامی لیگ کے کارکن بینرز اور پلے کارڈز لیے کھڑے تھے۔

’خدارا مذاکرات کا موقع ضائع نہ کریں، سیاستدان بحران کا حل نکالیں، پاکستان کو سانس لینے دیں، عمران خان صاحب مؤقف میں لچک دکھائیں، پاکستان کی خاطر سیاسی پوائینٹ اسکورنگ چھوڑ دیں‘

یہ وہ نعرے ہیں جو کم و بیش پورے پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں، سب مظطرب ہیں کہ کوئی نتیجہ نکلے، پاکستان آگے چلے، عوام کیلئے مشکل ترین ہوچکی زندگی گزارنے کی کوئی تدبیر ہو۔

لیکن جب ایجنڈا پاکستان کا نہ ہو، جب مقصد حل نکالنا نہیں، بگاڑنا ہو، جب یہ سوچا اور یہ سمجھا جاچکا ہو کہ سیاست میں کامیابی صرف سازش، انتشار، فساد سے ہی زیادہ تیزی سے ممکن ہے تو مذاکرات کا صرف ڈھونگ ہی رچایا جاتا، فریق مخالف کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا۔

اور یہ ہی کچھ ایک بار پھر کیا جا رہا۔ تیسرے دور کیلئے جب شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری آ رہے تھے تو ان کے چہروں پر اپنے لیڈر عمران خان کی پالیسی کا عکس واضح تھا۔

مذاکراتی نشست کا اختتام ہوا تو حکومتی ٹیم نے سیاسی رویہ اختیار کیا اور متنازعہ بات کرنے سے گریز کیا کہ ’ایک ساتھ الیکشن پر اتفاق ہے مگر تاریخ پر بات ہو رہی‘۔

مذاکرات ہوں، جرگہ ہو یا کوئی بھی ثالثی فورم، ہمیشہ کوشش یہ کی جاتی کہ بات رکے نہ، آگے بڑھائی جاتی رہے، یہاں تک کہ کوئی نہ کوئی نتیجہ، حل نکل آئے۔ دنیا کی ہر جنگ مذاکرات کی ناکامی سے شروع اور اس کا اختتام مذاکرات کی ہی کامیابی پر ہوتا۔

لیکن تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے بات شروع کی تو مذاکرات سے آخری امید لگائے چہرے لٹک گئے، مایوسیاں مزید بڑھ گئیں۔

شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری نے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کردیا، شاید پہلے سے دیا گیا خان صاحب کا فیصلہ ہی سنایا جو مذاکرات کیلئے آتے وقت ہی ان کے چہروں سے عیاں تھا۔

مطلب قوم کی آخری امید، یہ مذاکرات بھی ایک سیاسی ڈھونگ تھا۔

یہ سیاسی مذاکرات اس وقت شروع ہوئے، جب ملک کے تمام ادارے، آئین و قانون، شخصیات، سیاسی جماعتیں، سب بحران کا حل نکالنے میں ناکام ہوچکے۔

یہ حقیقت میں آخری موقع ہی تھا سدھرنے کا لیکن افسوس، یہ قیمتی موقع اپنے ہاتھوں سے ضائع کیا جاتا نظر آرہا ہے۔

جب تحریک انصاف کا وفد مذاکرات کی میز سے واپس ٹکراؤ کے میدان کی طرف جانے کا اعلان کر رہا تھا اسی وقت پارلیمنٹ کے باہر مذاکرات کامیاب کرنے کی اپیل کرنے والوں پر پولیس نے دھاوا بول دیا، پاکستان عوامی لیگ کے چیئرمین چوہدری ناصر محمود اور ان کے کارکنوں کو تھانہ سیکرٹریٹ لے گئے۔

شاید پولیس کہتی ہو گی کہ آپ کیسے سرپھرے ہیں جو مذاکرات  کامیاب کرنے کا مطالبہ کرتے پھر رہے ہیں، مذاکرات کرنے والے اگر عوام کی سنیں تو ان کے ایجنڈے کا کیا بنے۔

کاش یہ آخری موقع نہ ہو، کاش خان صاحب مذاکرات سے حل نکالنے کا راستہ نہ چھوڑیں۔ ورنہ پچھتانے کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے۔

پھر یہ پلے کارڈ سب کو بہت یاد آئے گا جو وفاقی دارالحکومت کے تھانہ سیکرٹریٹ کے ایک کونے میں پڑے پلے کارڈز میں پڑا سوال بھی پوچھ رہا اور اشاروں کنایوں میں سمجھا بھی رہا۔

’کامیاب مذاکرات یا ملک میں فساد، آخر کیا چاہتے ہیں آپ؟‘