موجودہ سیاسی ماحول میں پرامن انتخابات نہیں ہوسکتے: سپریم کورٹ

Mar 29, 2023 | 12:07:PM
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انتخابات سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی ماحول میں پرامن انتخابات نہیں ہوسکتے، پنجاب میں بھی خطرات بتائے گئے ہیں، 8 اکتوبر کو حالات پر امن ہونے کی کون گارنٹی دے سکتا ہے۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔

وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پارٹی بننے کی درخواست دائر کر دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب یہیں بیٹھے ہیں آپ کی بات سنیں گے، اگر مزید کچھ کہنا ہے تو الگ سے درخواست دائر کی جائے، تشریف رکھیں آپ کارروائی میں مداخلت کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں اپنے فیصلے پر قائم ہوں، سپریم کورٹ کے اندرونی معاملے پر جو میرے ریمارکس ہیں وہ کورٹ رولز سے متعلق تھے، ان ریمارکس کو میڈیا میں غلط رنگ کر کے پیش کیا گیا، شاید میری غلطی ہے کل میں وضاحت نہیں کر سکا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آٸی کی درخواستیں خارج کی، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جار ی نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟۔

5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے: سپریم کورٹ

وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ عرفان قادر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن وکیل بھی سپریم کورٹ سے مشاورت کے بعد مقرر کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی جگہ جو وکیل پہلے دلائل دے رہا تھا اسے دلائل دینے دیں۔

الیکشن کمیشن کے عرفان قادر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے سننا نہیں چاہتے تو آپ کی مرضی، میں دلائل نہیں دیتا۔ وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ سے چلے گئے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے، وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ4/3  کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا۔ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ اسی بات کو دیکھ کر عدالتی حکم پر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ہیں، آپ دلائل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے۔

وکیل ای سی پی نے موقف اپنایا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں بھکر میانوالی میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی تھی، 2 لاکھ 97 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعد انتخابات کے حوالے سے میٹنگز ہوئیں، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذکر کیا۔

جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پانچ ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، پنجاب کیلئے 2 لاکھ 97 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے رقم مختص نہیں کی گئی تھی ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سیکورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سیکورٹی خطرات صرف الیکشن کے روز نہیں الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہوگا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، 2023 میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس کے پی سے موصول ہوئے، کے پی کے میں رواں سال دہشگردی کے 80 واقعات ہوئے، 170 شہادتیں ہوئیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں میں سکیورٹی خطرات ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کیلئے تیار ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، دو اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کر رہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ فرنٹ لائن پر عوام کا تحفظ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، عدالت نے ان حالات کے ساتھ آئین کو بھی دیکھنا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ وفاقی کابینہ کو 20 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خط لکھا، کابینہ نے 21 مارچ کو الیکشن کمیشن کو جواب میں وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی، کابینہ نے کہا کہ الیکشن کیلئے فوج تعیناتی کی منظوری نہیں دے سکتے، کابینہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے بھی معذرت کی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر سمیت دیگر کی رپورٹس درست ہونگی، دہشت گردی کے خطرات اپنی جگہ مگر آئین پر عملدرآمد تو لازمی ہے، الیکشن کمیشن تو کہہ رہا ہے ہمیں سہولیات مل جائیں تو ہم تیار ہیں، فوجی جوانوں کی قربانیاں لازوال ہیں، ایک ایک جان ہمارے لیے قیمتی ہے، آئین پر عملدرآمد کرنا بھی سب پر لازم ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے دہشتگرد حملے کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی گنجائش نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے نیا شیڈول دینے سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا، جو بھی مسائل درپیش تھے اس سے متعلق سپریم کورٹ میں ڈیکلریشن دینی چاہئے تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے، سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں ہوسکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کیلئے تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا یقین دہانی کس کی طرف سے ہے ؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے، جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتحابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کیوجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کر دیا، کے پی میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی، 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہوگا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، الیکشن کمیشن کے عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن سےعدالتی سوالات پر ہدایات لے لیں، وقفے کے بعد کے پی اور پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرلز کو سنیں گے۔

 وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن اپنے دلائل میں کہا کہ اگر کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشتگردی کا فوکس ہوگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا ہمیں قائل کر سکتے ہیں کہ 8 اکتوبر ہی کی تاریخ کیوں رکھی ؟ 8 ستمبر اور 8 اگست کی تاریخ کیوں نہیں دی جا سکتی؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھاگ نہیں رہا بلکہ حالات بتا رہا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ الیکشن پروگرام کے تحت تاریخ آگے کر سکے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن پروگرام اور الیکشن کی تاریخ دو الگ الگ معاملات ہیں، وہ قانون بتا دیں جس کے مطابق صدر یا گورنر کی دی گئی تاریخ کو تبدیل کیا جاسکے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلوں میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانے کے اختیارات ہیں۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وہ پاور کہاں ہیں جس سے الیکشن کمیشن تاریخ میں تبدیلی کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن کا کردار اس وقت شروع ہوتا ہے جب تاریخ کا اعلان ہو جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے، الیکشن قوانین کے تحت الیکشن کمیشن بظاہر تبدیلی صرف پروگرام میں کرسکتا ہے، آپ کیا ہمیں قائل کرسکتے ہیں کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہونگے ؟ آٹھ اکتوبر ہی تاریخ کیوں دی کیا آٹھ ستمبر یا آٹھ اگست کی تاریخ دی جاسکتی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ اداروں کی رپورٹس کے بعد ہی ایسی تاریخ دی جاسکتی ہے، ایجنیسیوں کی رپورٹ کے مطابق تھریٹ لیول بڑھ گیا ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ دیانت داری سے انتخابات کروائے، پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، صاف شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کرسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں اداروں سے معاونت نہیں مل رہی، انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہوگیا تھا اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آجاتے، الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشن 6 ماہ آگے کیوں کردئیے ؟ کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ انتخابات کرانے کا اختیار کس دن سے شروع ہوتا ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے، الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ گورنر اور صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالا تر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہئے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد 8 اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پولنگ کی تاریخ الیکشن شیڈول کا حصہ ہوتی ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا، جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہوسکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ عدالت نے صدر کو آگاہ کرنے سے نہیں روکا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ الیکشن شیڈول پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہوا جب آج پھر عدالت میں کھڑے ہیں۔

 جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر صدر تاریخ کا اعلان کردیں تو کیا الیکشن کمیشن اختیار استعمال کر کے انتخابات سے انکار کرسکتا ہے ؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پرانا شیڈول ختم کر کے نیا شیڈول جاری نہیں کیا، الیکشن شیڈول کے بجائے الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کا جھنڈا لگا دیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 الیکشن کمیشن کو تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتےہیں عدالت 8 اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔