حکومت کو تین سالہ کارکردگی پر تقریبات کی بجائے سوگ منانا چاہے:حمزہ شہباز 

Aug 26, 2021 | 19:12:PM
حکومت کو تین سالہ کارکردگی پر تقریبات کی بجائے سوگ منانا چاہے:حمزہ شہباز 
کیپشن: حمزہ شہباز (فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) پنجاب اسمبلی میں قائد حز ب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو تین سالہ کارکردگی پر تقریبات کے بجائے سوگ منانا چاہیے ،تحریک انصاف کو تین سالوں میں عوام کو مہنگائی، بیروزگاری، نااہلی اور معاشی بدحالی کا شکار کرنے پر شاباشی کے بجائے معافی مانگنا چاہیے ۔

تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں حمزہ شہباز نے کہاکہ کرپشن ختم کرنے کے دعویداروں کی حکومت میں پاکستان ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن انڈیکس میں 124ویں درجہ پر آ گیا ہے۔مسلم لیگ ن کی حکومت2013 سے 2018 تک کے عرصے میں اسے127 سے 117ویں درجے پر لے آئی تھی۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ برائے 20-2019 میں 400 ارب سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والی رپورٹ میں بھی زکو اۃ اور بیت المال کے فنڈز میں 3ارب سے زائد کی بے ضابطگیاں کا بھی انکشاف کیا گیا۔آٹے، چینی،راولپنڈی رنگ روڈ،ادویات سکینڈلز سمیت کئی کرپشن کی داستانیں اس حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہیں۔ اس حکومت نے عوام کی بیماری پر بھی پیسے بنانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں ادویات کی قیمتوں میں 13 مرتبہ اضافہ کیا گیا جو مجموعی طور پر تقریبا ساڑھے سات سو فیصد بنتا ہے۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی جانب سے سرکاری اسپتالوں میں مفت مہنگے ٹیسٹوں اور تشخیص کی سہولت کو بھی ختم کر دیا گیا۔2018میں 50روپے میں ملنے والی چینی 110روپے میں بک رہی ہے، اسی عرصے میں آٹے کا 20کلو کا تھیلا 362 روپے مہنگا ہوا۔گھی کوکنگ آئل اور خوردنی تیل کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں 2018 میں 190روپے فی کلو میں فروخت ہونے والا کوکنگ آئل 340 روپے میں بک رہا ہے۔ 16کلو کا گھی کا ٹین 2018 میں 2200 روپے میں ملتا تھا اب وہی ٹین 4400 روپے کا ملتا ہے۔ مہنگائی کی شرح جو ن لیگ کے دور میں 4 فیصد تک تھی اسے یہ پہلے ڈبل فگرز میں لا کر عوام کا خون چوستے رہے اور اب یہ 9فیصد پر کھڑی ہے۔ 5.5 فیصد پر ترقی کرنے والی معیشت کو مالی سال 2019 میں منفی 0.4 فیصد پر لے آیا گیا ایسا 1950 کے بعد پہلی مرتبہ ہوا تھا جب پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے 3 سال میں 4 وزیر خزانہ ، 6 ایف بی آر کے چئیرمین اور 3 بور ڈ آف انویسٹمنٹ کے چئیرمین تبدیل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں میں 7مرتبہ اضافہ کیا گیا 12 روپے کا بجلی کا یونٹ 21 روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ہونے والا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 144 فیصد اضافہ کیا گیا ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں 30سے 40 فیصد اضافہ کیا گیا۔ کشکول توڑنے کے دعویداروں نے کشکول کا حجم بڑھا دیا ہے تحریک انصاف کی حکومت میں قرضوں میں ریکارڈ 52 فیصد کا اضافہ ہوا۔اب تک یہ حکومت ملکی قرضوں میں 15ہزار 600 ارب کا اضافہ کر چکی ہے۔ 2018 کا مجموعی قرضہ جو 29ہزار ارب تھا اسے 45 ہزار ارب تک پہنچا دیا گیا ہے مسلم لیگ ن کی 5سالہ حکومت کے مقابلے میں تحریک انصاف اپنے تین سالوں میں 3000 ارب سے زائد قرض حاصل کر چکی ہے ۔ ہمارے لئے گئے قرضوں سے میٹرو منصوبے ، موٹر ویز اور وافر بجلی منصوبوں سمیت متعدد میگا پراجیکٹس شروع اور مکمل کئے گئے انکے قرضے کہاں جا رہے ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں۔لے دے کر ایک پشاور میٹرو کا منصوبہ تھا جسکی لاگت 49ارب تھی اسے 71 ارب میں تین سالوں میں مکمل کیا گیا کرپشن کی اس داستان پر خیبر پختونخوا کی اپنی حکومت کی انکوائری رپورٹ نے کچا چٹھا کھول دیا۔

تحریک انصاف نواز شریف اور شہباز شریف کے شروع کئے گئے منصوبوں پر تختیاں لگا کر اپنی نا اہلی پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ پنجاب کی فی کس آمدن جو 2008 میں 66ہزار سے زائد تھی اسے شہباز شریف اپنے دور حکومت میں 153000 سے زائد پر لے آئے تھے۔ صنعتی شعبہ جب 2008 میں ہمیں ملا تب اس میں شرح ترقی منفی 4.5 فیصد تھی شہباز شریف نے اسے 2018 میں مثبت 6.5 پر انکے حوالے کیا۔ پنجاب میں شہباز شریف کے دور میں 46 بڑے ہسپتال تعمیر کئے گئے 70 سے زائد نئی ڈسپنسریاں قائم کی گئیں ۔ پنجاب میں شرح خواندگی جو 14-2013 میں 61فیصد تھی اسے 2018 میں 64 فیصد پر لے آئے،اسی دور میں شہباز شریف اسکول سے باہر بچوں کی شرح 27فیصد سے 21 پر لے آئے اس میں بچیوں کی پرائمری سطح پر انرولمنٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔دیہی روڈز پروگرام کے تحت کسانوں کے لئے 8 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکوں کی تعمیر و مرمت کر کے کسان کو فائدہ پہنچایا گیا۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں کارکردگی اور عوام کی اصل خدمت کا مقابلہ میوزیکل کنسرٹ ، اعداد و شمار کے ہیر پھیر، فن فئیر اور نا اہلی سے نہیں بلکہ عوام کے حالات بدلنے سے ہوتا ہے جس میں یہ ناکام ہو گئے ہیں۔ 
یہ بھی پڑھیں: کل کہاں کہاں  تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش۔۔؟