سانحہ جڑانوالہ کیسے پیش آیا؟نامزد چیف جسٹس کیوں گئے؟یہ جج اور جرنیل’رموزسلطنت‘چلانے کیوں نکل آتے ہیں؟ تہلکہ خیز انکشافات

Aug 20, 2023 | 12:00:PM
سانحہ جڑانوالہ کیسے پیش آیا؟نامزد چیف جسٹس کیوں گئے؟یہ جج اور جرنیل’رموزسلطنت‘چلانے کیوں نکل آتے ہیں؟ تہلکہ خیز انکشافات
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سانحہ جڑانوالہ کیسے پیش آیا؟مشتعل جتھے کی برین واشنگ؟نامزد چیف جسٹس کیوں گئے؟یہ جج اور جرنیل’رموزسلطنت‘چلانے کیوں نکل آتے ہیں؟ سینئر تجزیہ کاروں نے تہلکہ خیز انکشافات کردئیے۔

24 نیوز کے پرورگرام “ نسیم زہرہ ایٹ پاکستان “میں سنئیر تجزیہ نگار سلیم بخاری جڑانوالہ واقعے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوس ناک سانحہ ہے،میرا سر شرم سے نیچے ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ہمارے کام اس طرح کے ہیں یہ واقعہ اس وجہ سے پیش آیا کہ ہم نے اس سے پہلے ہونے والے واقعات میں ان لوگوں کو سزائیں نہیں دیں جس سے وہ عبرت پکڑتے  اور اسطرح کا کام کرنے میں سو مرتبہ سوچتے ۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال سانحہ سیالکوٹ ہوا جس میں ایک سری لنکن کو زندہ جلادیا گیا تھا، لاہور کے اندر یوحناآباد کا واقعہ ہوا جس میں کتنے لوگ زندہ جلا دیے گئے،جوزف کالونی لاہور میں انتہائی افسوسناک واقعہ ہوا تھا جس میں کتنے لوگ قتل ہوئے اور گوجرہ میں جس میں کتنے ہی لوگوں کو بے گناہ مارا گیا۔
ہم دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور  ہمارا حال یہ ہے کہ ہم گرجا گھروں پر حملے کررہے ہیں۔ پوری دنیا اب ہماری طرف دیکھ رہی ہے،یورپی یونین نے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔یہ صرف اس لیے ہوا کہ ہم ان واقعات کے مرتکب ملزموں کو سزائیں نہیں دے رہے جس سے وہ عبرت پکڑیں ،اگر کچھ کہتے ہیں تو جب تک میڈیا میں واویلا رہتا ہے تو کیس چلتا ہے بعد میں معاملہ سرد خانے میں چلا جاتا ہے۔ 
جتنے سانحات ہوئے ہیں کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ زیادہ تر لوگ بری ہوگئے ہیں یا ضمانتوں پر ہیں،جس طرح نمزد چیف جسٹس  وہاں پہنچ گئے، انکا وہاں جانا بنتا ہی نہیں تھا، انکا کام تھا کہ وہ اپنے ادارے میں بیٹھ کر انصاف کرتے نہ کہ ثاقب نثار کی طرح ہر معاملے میں خود ہی پہنچ جائیں۔
اس پر مزید بات کرتے ہوئے سنیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ان واقعات کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کوئی سمت ہی نہیں بنائی ہوئی، جس وجہ سے اس طرح کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ہم نے اپنی قوم کو ہمیشہ تقسیم کیا ہے کبھی فرقہ بازی میں، کبھی مذہب کارڈ میں، کبھی قوم پرستی میں، ہم کبھی پاکستانی بنے ہی نہیں۔ آپ 1960 سے لے اب تک دیکھ لیں واقعات میں اضافہ ہوا ہے ناکہ کم ہوئے ہیں انکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا ہوا۔
انہوں نے کہا ہے کۃ یہ واقعات کسی شخص کو پکڑ کر سزا دینے سے کم نہیں ہونگے بلکہ ایسے واقعات پالیسیاں بنانے سے کم ہونگے۔ ہم نہ اپنی میجورٹی کو تحفظ دے سکے اور نہ ہی مینورٹی کو ۔ہم نےایسا انظام بنادیا کہ جس میں فرقے ہی بنتے ہیں اور ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔یہ واقعہ دیکھ کر مجھے جالب کا قول یاد آگیا جس میں وہ کہتا ہے کہ” دیکھو قائد اعظم تمہارا پاکستان” اور واقعی ایسا ہی ہے جڑانوالہ واقعے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ہجوم ہیں اور یہ ہجوم ہونے کے اثرات ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں اور یہ مسائل اب قومی نہیں بلکہ بین الاقومی ہوچکے ہیں، یہ واقعہ کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ وہ اثرات ہیں جس میں یہ معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے جس طرح کا مائنڈ سیٹ دیا گیا ہے معاشرے کو یہ اس کے اثرات ہیں۔
اس پر مزید بات کرتے ہوئے سنئیر تجزیہ نگار محمد مالک کا کہنا تھا کہ یہ واقعات تب ختم ہونگے جب ریاست کوئی پالیسی بنائے گی اور لوگ ایسے کام کرنے سے 2 بار سوچیں گے کہ ایسا کام کریں نہیں۔
آپ دیکھیں کہ پرویزمشرف کے دور میں جب ایسے کوئی واقعات ہوئے تھے تو انھوں نے اس پر سخت ایکشن لیا تھا اور ریاست جیت گئی تھی اسی طرح ایک بار ٹی ایل پی نے ملک جام کردیا تھا اور فوج کی بارڈر لائین کراس کرنے کی کوشش کی تھی تو  فوج کا پورا پریشر ان پر پڑا تو سڑکیں بھی پرامن ہوگئیں اور لوگ بھی اپنی حدود میں رہے ۔


اور پیچھے 9 مئی کو جب سانحہ ہوا اس ٹائم صرف ایک کورکمانڈرہاؤس جلا اور ریاست نے کتنا ایکشن لیا ،ایک قیامت برپا ہوئی  یہاں تو 60 گھر جلے ہیں اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ہمارے ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مذہب بہت پاور فل ہے ہر مذہبی لیڈر کے پاس اپنا ذاتی 15 سے 20 ہزار ووٹ ہے جس وجہ سے سیاست دان بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں۔
آپ نے جو بھی کام کروانا ہو زمین پر قبضہ لینا ہو یا کروانا ہو جگا ٹیکس لینا ہو چاہے جو بھی کام کروانا ہو ،ان کے پاس بہت بڑی پاور ہے،میرے علم میں دو کراچی کے اندر بہت بڑے مدرسے ہیں جن کے مہتمم ہر کام کردیتے ہیں، وہ ہمارے چینل بھی بیٹھ کر لوگوں کو مذہبی درس دے کر لوگوں کو رلاتے ہیں اور ان کے بچے دوسرے طریقے سے لوگوں کو رلاتے ہیں۔