این اے 127:کس کا پلڑا بھاری؟کون مارے گا میدان؟

حلقہ این 127 ہے جو 2018میں 133 تھا،اس حلقے کا شمار لاہور کے اہم سیاسی حلقوں میں ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو  کےدور کے بعد سے یہاں مسلم لیگ ن کا قبضہ رہا ہے۔

Jan 19, 2024 | 11:24:AM
این اے 127:کس کا پلڑا بھاری؟کون مارے گا میدان؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(اظہر تھراج)لاہور کے حلقہ این اے 127میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کے بعد یہ حلقہ اہمیت اختیار کرگیا ۔ اس حلقے میں کس کا پلڑا بھاری ہے اور کون یہاں سے میدان مارے گا؟

پاکستان میں قومی انتخابات کی آمد آمد ہے،قومی نشریاتی اداروں ،غیر سیاسی تنظیموں کی جانب سے سروے بھی کیے جارہے ہیں ۔جہاں ملک بھر میں بڑی شخصیات  انتخابی میدان میں موجود ہیں تو لاہور کا حلقہ این اے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے  آنے سے اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

 حلقہ این 127 ہے جو 2018میں 133 تھا، نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ این اے 127ہوگیا،اس حلقے کا شمار لاہور کے اہم سیاسی حلقوں میں ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو  کےدور کے بعد سے یہاں مسلم لیگ ن کا قبضہ رہا ہے۔ لاہور سے گذشتہ کئی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی یا قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی اور اب مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہی میدان میں اتارا ہے۔

ضرور پڑھیں: کراچی :کارپوریشن نے مختلف سیاسی جماعتوں کے پلے کارڈ اور بینرز اتار دیئے

اس حلقے سے مسلم لیگ ن نے اپنے ایک نئے کھلاڑی عطا تارڑ کو میدان میں اُتارا ہے ،پی ٹی آئی کے امیدوار شبیر احمد گجر میدان میں ہیں ، شبیر احمد گجر کو حقہ کا نشان الاٹ۔قومی اسمبلی کے اس ایک حلقے میں 5 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جن میں پی پی 157، 160، 161، 162، 163 شامل ہیں۔حلقہ این اے 127 کی کل 9 لاکھ 72 ہزار آبادی میں سے 5 لاکھ 27 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات 2024 کے لیے جاری کی گئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تواس حلقے کا مرکزی حصہ ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن، کوٹ لکھپت اور چونگی امرسدھو کی گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔

صرف یہی نہیں اس علاقے میں دو گنجان آباد مسیحی بستیاں مریم کالونی اور بہار کالونی بھی واقع ہیں۔قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ بھی اسی حلقے میں ہے جبکہ ماڈل ٹاؤن، جوہر ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن کے کچھ علاقے بھی حلقہ این اے 127 میں شامل ہیں۔ دو دہائیوں پر محیط سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سال 2002 میں جب پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت زیر عتاب تھی اور چوہدری برادران کی مسلم لیگ ق کا دور دورہ تھا۔

 عام انتخابات 2002 میں اس حلقے سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ انہوں نے ق لیگ کے اس وقت کے امیدوار عبدالعلیم خان اور ن لیگ کے نصیر بھٹہ کو شکست دی تھی۔سنہ 2008 کے انتخابات میں ن لیگ کی قیادت جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچ چکی تھی تو اس حلقے سے نصیر بھٹہ نے پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ریاض اور ق لیگ کے عبدالعلیم خان کو شکست دی۔ اسی طرح سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں یہ سیٹ ن لیگ کے پاس رہی۔

یہ بھی پڑھیں:الیکشن کمیشن کے مرکزی سیکرٹریٹ کو صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بنا دیا گیا

2018میں ملک پرویز نے یہاں سے 89678 ووٹ حاصل کیے، اعجاز احمد چوہدری تحریک انصاف کے امیدوار نے 77231ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے جبکہ ٹی ایل پی کے مطلوب احمد نے 13235ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہےاور پیپلز پارٹی کو صرف پانچ ہزار ووٹ ملے تھے۔ پرویز ملک کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں شائستہ پرویز ملک 46 ہزار 811 ووٹ لے کر کامیاب رہی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری محمد اسلم گُل 32ہزار 313 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیداوار کے بھاری ووٹوں کی وجہ سے ہی بلاول بھٹو نے اس حلقے کا انتخاب کیا ہے۔اور شائد یہ وہ لاہور کا واحد حلقہ ہے جہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہو سکتا ہے۔ اس حلقے میں دو بڑی مسیحی بستیاں بہار کالونی اور مریم کالونی واقع ہیں۔ ان کا ووٹ فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو لبرل جماعت قرار دینے والی پیپلزپارٹی کے لیے اس ووٹ کو سمیٹنا بظاہر آسان ہدف ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب طاہرالقادری اس حلقے سے جیتے تھے تو انہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں کہا تھا کہ ان کو 54 ہزار مسیحیوں نے ووٹ ڈالا ہے۔

 یہاں 35 چرچ ہیں اور بلاول نے ان گرجا گھروں کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے  حمایت کی درخواست بھی کی ہے۔

دوسرا بڑا فیکٹر اس حلقے میں منہاج القران کا مرکزی سیکرٹریٹ کا ہونا بھی ہے۔اسی حلقے سے طاہر القادری خود بھی کامیاب ہو چکے ہیں ۔اس لیے منہاج القران تنظیم کا یہاں اثر رسوخ ہے ۔اسی اثر رسوخ کو بھی پیپلز پارٹی اپنے حق میں کرتے دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ دنوں ہی بلاول  بھٹو نے منہاج القران کا دورہ کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور سیکرٹری جنرل پی اے ٹی خرم نواز گنڈاپور نے اپنے بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی کیلئے ہماری حمایت اس حلقے میں نظر آئے گی، ہماری مخالفت صرف (ن) لیگ سے ہے کیونکہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملزم ہے۔یہی وہ فیکٹر ہے جس کی وجہ سے سابق صدر آصف علی زرداری کو یقین ہے کہ وہ این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری کو پہلے ایم این اے اور پھر وزیر اعظم بنائیں گے۔

لیکن سٹی نیوز نیٹ ورک کی طرف سے کروائے گئے سروے میں پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ سب سے زیادہ نکلا ،دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن اور تیسرے نمبر مذہبی جماعت ٹی ایل پی رہی جبکہ پیپلز پارٹی چوتھے نمبر پر آئی تھی ۔جماعت اسلامی پانچویں نمبر پر رہی ۔یہ کسی بھی قومی حلقے کا سب سے بڑا سروے تھا ،اس سروے میں 2 سو ٹیموں نے  حصہ لیا ،ہر ٹیم میں 2 افراد تھے۔پورے حلقہ سے گھر گھر جاکر  تقریباً 20 ہزار ووٹ کاسٹ کروائے گئے۔

Azhar Thiraj

ایڈیٹر سٹاف ممبر،دنیا نیوز،روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان اور دیگر اداروں میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں.