شہباز گل کی درخواست ضمانت منظور، رہا کرنے کا حکم

Sep 15, 2022 | 10:37:AM
شہباز گل کی ضمانت بعداز گرفتاری کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بنچ بغاوت کو نہیں مانتا، اس کے علاوہ دلائل دیں
کیپشن: ڈاکٹر شہباز گل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل کی ضمانت بعداز گرفتاری منظور کرلی۔ عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کو 5 لاکھ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بنچ بغاوت کو نہیں مانتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ وکیل نے موقف اپنایا کہ شہباز گل کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی اور قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے، شہباز گل کے خلاف مقدمہ سیاسی ہے۔ چیف جسٹس نے شہباز گل کے وکیل کو سیاسی بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے: اسلام آباد پولیس

 وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل تحریک انصاف حکومت میں معاون خصوصی تھے، سہباز گل کو حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کے چیف آف سٹاف بنا دیا گیا، شہباز گل حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری باتیں شہباز گِل نے کہی تھیں ؟ کیا ان تمام باتوں کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ کیا سیاسی جماعت کے ایک ترجمان کے ان الفاظ کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ کیا سیاسی جماعتوں کو آرمڈ فورسز کو سیاست میں دھکیلنا چاہیے ؟ یہ صرف تقریر نہیں ہے۔

وکیل نے موقف اپنایا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کر دیا گیا، شہباز گل نے کہیں بھی فوج کی تضحیک کرنے کی کوشش نہیں کی، شہباز گل کی ساری گفتگو سٹریٹیجک میڈیا سیل سے متعلق تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں، یہ گفتگو بتاتی ہے کہ نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا گیا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ آرمڈ فورسز کی طرف سے مقدمہ درج کرانے کا اختیار کسی اور کے پاس نہیں، شہباز گل پر مقدمہ میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں، ٹرائل کورٹ نے تو پراسیکیوشن کا کیس ہی ختم کر دیا، شہباز گِل کے ریمانڈ کو بہت متنازع بنایا گیا، بغاوت کی دفعات نے اس مقدمہ کو بھی متنازع بنا دیا، ٹرائل کورٹ نے کہا کہ 13 میں سے 12 دفعات شہباز گل پر نہیں لگتیں، چلیں ایک نمبر تو دیا نا۔

چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ جو کچھ شہباز گل نے کہا، کیا آرمڈ فورسز نے کوئی شکایت درج کرائی ؟ کیا آرمڈ فورسز اتنی کمزور ہیں کہ وہ غیر ذمے دارانہ بیان سے متاثر ہو ؟، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آرمڈ فورسز خود ایف آئی آر درج کرائیں۔

چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے سوالات کیے کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا کہ شہباز گل نے کسی سولجر سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا ؟ ٹرائل کورٹ نے ایک کے سوا آپ کی باقی سب دفعات ختم کیں۔ کیا آپ نے کبھی ٹرائل کورٹ کے اُس آرڈر کو چیلنج کیا ؟۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے آرڈر کو چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر آپ کے خلاف جائے تو چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ بغاوت کی دفعات پر نہ جائیں، یہ کلونیل لاز ہیں، یہ بینچ بغاوت کو نہیں مانتا، اس کے علاوہ دلائل دیں۔ بغاوت کے کیس کو تو یہ عدالت مانتی ہی نہیں۔ یہ بتائیں چیف کمشنر، وزارت داخلہ کی بغاوت کا کیس بنانے کی منظوری کہاں ہے ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہباز گل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ آپ بغاوت کریں ؟ ، جس پر پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ انہوں نے ایک کو نہیں بلکہ سب کو کہا۔

 پراسیکیوٹر نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تقریر سے اشتعال دلانا بغاوت پر اُکسانے کے مترادف ہے۔ اصل میں بغاوت کا ہو جانا ضروری نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بغاوت پر نہ آئیں، یہاں جس کی جو مرضی آئے دوسرے کو غدار کہتا ہے ۔ اس کورٹ نے کہہ دیا غیر ذمے دارانہ بیان تھا، اس کے علاوہ بتائیں؟۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل نے بات ایک نیوز چینل پر کہی تھی۔ وہ نیوز چینل ملک کا ہر دوسرا شہری دیکھ رہا تھا۔ آرمڈ فورسز میں بھی نیوز چینل دیکھا جاتا ہے۔ یہ بغاوت پر اکسانے کا الزام ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہباز گل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ بغاوت کرو تو بتائیں؟۔ راجا رضوان نےبتایا کہ انہوں نے ایک کو نہیں، سب کو بغاوت پر اکسانے کا کہا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق بتائیں کیسے یہ الزام بنتا ہے؟۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک آپ نہیں بتا سکے کہ شہباز گل نے کسی سولجر سے رابطہ کیا ہو ۔ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ کل کو وہی شخص بے قصور نکلا تو اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کارروائی ضرور کریں لیکن ٹھوس مواد  تو سامنے لائیں۔ آپ بتائیں کیوں کس بنیاد پر یہ عدالت انہیں ضمانت نہ دے۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بغاوت کے مقدمے میں شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔