فیس بک کیسے کمائی کرتی ہے؟

Mar 07, 2023 | 18:46:PM
فیس بک کیسے کمائی کرتی ہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گو گل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) صارفین کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک اکثر تنازعات کا شکار رہتا ہے۔ آئے روز لاکھوں ڈالرز کے جرمانے اور پابندیاں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ 

رپورٹس کےمطابق دنیا کی تقریبا ایک چوتھائی آبادی روزانہ فیس بک استعمال کرتی ہے۔ فیس بک کا آغاز ہاورڈ یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں نے کیا جس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ان طلبا نے ،فیس بک، کے نام سے ایک پیپر ڈائریکٹری کے طور پر اس کی شروعات کی جس میں طلبا کی تصاویر اور بنیادی معلومات تھیں لیکن اس میں کسی کو  تلاش کرنا بہت مشکل عمل تھا۔ انہیں طلباء نے آگے جا کر اپنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی اسی نام سے شروع کیا جس میں لوگوں کو تلاش کرنا بہت آسان تھا۔ 

فیس بک کے بانی طلباء میں سے ایک طالب علم ،جوڈٹ ڈوناتھ ، کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کی شروعات اپنی یونیورسٹی سے کی اور بعد میں دوسری یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی اس میں شامل ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید یونیورسٹیوں کے طلباء شامل ہوتے چلے گئے۔ پھر ان کے رشتہ دار اور آگے سے ان کے دوست اس میں شامل ہوتے گئے۔ آخر کار 2006 تک یہ دنیا کا ایک بہت بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا اور اس نے اس وقت کے ’مائی سپیس‘ اور ’فرینڈسٹر‘ جیسے پلیٹ فارمز  کا مقابلہ شروع کر دیا۔یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس میں جتنے زیادہ لوگ شامل ہوتے گئے اتنا ہی زیادہ فائدہ حاصل ہوتا چلا گیا اور جب یہ پہلی بار شروع ہوئی تو لوگوں کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔

مزید پڑھٰیں: آئی فون 15 سیریز کے نئے ماڈلز کے ڈیزائن سامنے آگئے

ہاورڈ یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی اور میڈیا کی سیینئر محقق اور میڈیا ماہر جوڈٹ ڈوناتھ کے مطابق مارک زکربرگ نے فیس بک کا ابتدائی ڈیزائن بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کے لیے بہت بے تاب رہتے ہیں۔ لوگ نا صرف اپنے دوستوں بلکہ آگے ان کے دوستوں کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔ 

ابتدا سے ہی فیس بک کی کمپنی کا نام ،فیس بک، ہی تھا لیکن 2021 میں اس کی پیرنٹ کمپنی کا نام تبدیل کر کے ،میٹا، کر دیا گیا تھا۔ 

 کارڈف یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کے سیینئر محقق ڈاکٹر مارلن کومورووسکی کا بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ فیس بک کا بنیادی کاروبار اشتہارات کا ہے، اس کی 98 فی صد کمائی اشتہارات سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس کو شروع ہی اشتہاروں کی حکمت عملی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ یعنی ہم جتنا وقت فیس بک پر صرف کرتے ہیں اس کمپنی کو اتنا ہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔  بہت سے لوگ اور کمپنیاں اس پر اشتہارات لگواتے اور دیکھتے ہیں، ہر روز صارفین یہاں سے چیزیں خریدتے ہیں جتنے زیادہ لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں اتنا ہی زیادہ اس کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے۔اسی لیے اس کمپنی نے واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسے بہت بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم خرید لیے ہیں۔ 

لازمی پڑھیں: پی ٹی اے اور نادرا کے درمیان تعاون کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط

سال 2022 کے پہلے 9 ماہ تک اس کی کمائی مسلسل کم ہوتی رہی لیکن آخری 3 ماہ میں اس نے 32 ارب ڈالر کمائی کی جو ماہرین کے نزدیک اچھی اور بہتر آمدنی تھی۔ لیکن سال 2022 میں اس کمپنی کل 116 ارب ڈالر کی کمائی کی تھی۔

اربوں لوگ روزانہ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں لیکن حالیہ سروے کے مطابق 13 سے 19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس کے استعمال کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ جو کہ فیس بک کے مستقبل اور اس کی کمائی کے لیے آنے والے وقتوں میں خطرے کی گھنٹی ہے۔ تاہم اس وقت 60 سال سے زائد عمر کے لوگ دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نسبت فیس بک زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔  بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ فیس بک کی آمدنی کا دارومدار صرف اشتہارات پر ہے جو کہ کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں، ایک ہی ذریعہ پر انحصار کرنا بہت مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خطرات سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔ 

انہی خطرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے میٹا نے بھی حال ہی میں کمپنی برانڈنگ تبدیل کر دی اس نے ،میٹا ورس، میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ میٹا ورس سے ڈیجیٹل ورلڈ میں معلومات حاصل کرنا اور شیئر کرنا ایک دوسرے سے جڑا ہو گا جس میں کافی وقت بھی درکار ہو گا۔ 

رواں سال 2023 میں میٹا کمپنی کا ہدف کفایت شعاری اپنا کر اخراجات میں کمی لانا ہے اور اسی مقصد کے حصول کیلئے اس نے پچھلے برس کے آخر میں 13000 افراد کو ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔ 

مزید جانیں: فیس بک نے صارفین کی بڑی پریشانی حل کر دی

انٹرنیٹ سکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی جیسے معاملات میں امریکا اور یورپی یونین نے فیس بُک پر بڑے جرمانے بھی عائد کیے ہیں۔گذشتہ برسوں کے دوران فیس بک نے قانونی معاملات کو طے کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے جرمانے ادا کیے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اس نے کیمبرج اینالیٹیکا کیس میں 700 ملین ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ قبول کیا تاہم غلطی کااعتراف نہیں کیا تھا۔اسی طرح یورپی یونین نے ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں پر فیس بک اور انسٹاگرام پر 400 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔

سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی کمپنی کے لیے 19 سال تک دوسروں سے آگے رہنا ایک بڑی کامیابی ہے۔فیس بک ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایسا حصہ بن چکا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں اسے ترک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
لیکن فیس بک کے سامنے مشکلات ضرور ہیں۔ اس کا مستقبل انسانی فطرت اور رویے پر منحصر ہے جس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔