آج بھی خواتین کو انتخابی اصلاحات سے دور رکھا جا رہا ہے

Feb 07, 2024 | 20:10:PM
آج بھی خواتین کو انتخابی اصلاحات سے دور رکھا جا رہا ہے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

خانیوال کی تحصیل کبیروالا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر یونین کونسل موہری پور واقعہ ہے جہاں 1947ء سے لے کر اب تک خواتین کو انتخابی اصلاحات سے دور رکھا گیا۔

پاکستان کے قیام سے بھی پہلے یہاں بزرگوں کے اجتماعی فیصلے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ خواتین اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کریں گی جس کے بعد سے لے کر اب تک خواتین الیکشنز سے ہمیشہ دور رہیں۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق 9,014 افراد کے اس گاؤں میں 4,835 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ سرکاری طور پر خواتین ووٹرز کی تعداد 2002ء سے اب تک 1,883 پر مستحکم ہے، جس سال قومی شناختی کارڈ کیلئے نیشنل ڈیٹابیس اور رجسٹریشن اتھارٹی کے ساتھ ان کی رجسٹریشن نے انہیں خود بخود ووٹر کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پولنگ ڈے پر خواتین ووٹرز کیلئے چار پولنگ بوتھ مختص کیے جاتے ہیں مگر اس علاقے سے کوئی خاتون بھی اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتی۔

تاریخ میں صرف ایک بار بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ملتان ہائیکورٹ لاہور بینچ کے آرڈرز پر صرف ایک خاتون نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا ووٹ سخت سیکیورٹی میں کاسٹ کیا۔

آزادی کے بعد سے گاؤں میں کافی سماجی تبدیلی آئی ہے۔ گاؤں میں تعلیم کی سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے شرح خواندگی 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ خواتین کام پر جاتی ہیں اور گھریلو اور زرعی امور کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ آج کل موہری پور کی خواتین جانتی ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ پھر بھی وہ روایت کو برقرار رکھتے نظر آتے ہیں۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق اگر کسی حلقے میں خواتین کے کل ووٹ مجموعی تعداد کے 10 فیصد سے کم ہوں تو اس حلقے کی ووٹنگ صفر ہے لیکن الیکشن کمیشن کے افسران عام طور پر موہری پور میں قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں خواتین کی عدم شرکت کے باوجود ووٹنگ کو درست قرار دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سید ندیم حیدر سے جب اس معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ای سی پی موہری پور کے نتائج کو قبول کرتا ہے کیونکہ کمیشن اس بات سے مطمئن ہے کہ اس حلقے کے عام انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا چاہے خواتین نے کسی مخصوص پولنگ بوتھ یا ڈویژن میں اپنا ووٹ نہیں ڈالا مگر ایسا تب ممکن ہے جب جیتنے والا امیدوار اپنے حریف سے بہت آگے تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ای سی پی کے عہدیداروں نے موہری پور کمیونٹی کے رہنماؤں کے ساتھ جو ملاقاتیں کیں انہیں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے میں زبردستی یا دھمکی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ 

سال 2015ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خانیوال کی یو سی 25 میں موہری پور اور مری ساہو شامل تھے۔ دو امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ جس میں حماد رضا 2484 ووٹ لے کر علاقے کی چیئرمین منتخب ہوئے ان کے مقابلے میں کرامت حسین نے 2470 ووٹ حاصل کیے۔ دونوں امیدواروں کے درمیان صرف 14 ووٹوں کا فرق آیا۔ اگر موہری پور کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوتی تو نتائج شاید مختلف ہوتے۔ موہری پور کے امیدوار ہار کو ترجیح دیتے ہیں مگر وہ خواتین کا ووٹ دینے کو بے عزتی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح 2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں، یونین کونسل کے سابق چیئرمین غلام مصطفیٰ اولکھ، جو ایک وکیل تھے، اپنے وارڈ سے 150 ووٹوں سے ہار گئے اگر اس کے علاقے کی خواتین ووٹ دیتیں تو وہ جیت سکتا تھا۔ انہوں نے انتخابی جیت کیلئے اوپر کی روایت کو زحمت نہیں دی۔

موہری پور کے 88 سالہ ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر ملک خادم حسین نے کہا کہ آباؤ اجداد نے یہ فیصلہ اس وقت کے حالات کی بنیاد پر کیا لیکن ان کے انتقال کے بعد بھی موہری پور کے لوگ اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ جو روایت ان کے بزرگوں سے چلی آ رہی ہے اسے کسی صورت بھی اب ختم نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم 2015ء میں ایک خاتون اپنے جمہوری حق کیلئے کھڑی ہوئی اور گاؤں میں ووٹ ڈالنے والی موہری پور کی پہلی خاتون بن گئیں۔ اس کا نام فوزیہ قیصر ہے۔ اس نے 2015ء کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بنچ میں ایک درخواست کے ذریعے اپنے اور دیگر خواتین کیلئے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے بعد ووٹ دیا۔ تاہم 2018ء کے عام انتخابات میں، موہری پور کے چاروں پولنگ بوتھوں پر ایک بھی خاتون نے اپنا ووٹ نہیں ڈالا۔

فوزیہ قیصر نے کہا کہ اگر خواتین نے ووٹ نہیں دیا تو ضلعی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن پولنگ سٹیشنوں کے نتائج جاری نہ کریں۔ ’ایسا اقدام نہ صرف انتخابات میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنائے گا اور جمہوری عمل کو تقویت دے گا۔ اس سے گاؤں کو ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری سہولیات کی شکل میں مزید فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ دوسری صورت میں انہوں نے کہا کہ وہ موہری پور کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی پہلی اور شاید آخری خاتون ہوں گی۔

یہ علاقہ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 144 کی حدود میں آتا ہے۔ سابق وفاقی وزیر سردار رضا حیات ہراج اور سابق وفاقی وزیر سید فخر امام جیسے بڑے سیاست دان بھی اس حلقے میں موجود ہیں مگر موہری پور کے علاقے میں خواتین کو ووٹ کا حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔

سردار رضا حیات حراج کا اس حوالے سے کہنا تھا کے اس گاؤں کے بزرگوں نے پاکستان آزاد ہونے سے بھی قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہاں کی خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کریں گی جو کہ اب ان کی روایت بن چکا ہے۔ میں ان کی روایت کو نہیں توڑ سکتا۔ اس گاؤں کے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت کب دیں گے اور گاؤں کے لوگوں کے فیصلے کے بغیر خواتین کا انتخابی اصلاحات میں حصہ لینا ممکن نہ ہو پائے گا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے سیاستدان بھی علاقے کے بزرگوں کے فیصلے کے آگے بے بس ہیں۔

موہری پور میں تعلیمی سہولیات اور سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی بھی روایتی سوچ ان کی شرکت کو روک رہی ہے۔ فوزیہ قیصر جیسی خواتین کی شجاعت کے باوجود بھی خواتین کا ووٹ کاسٹ کرنے میں مختصر ہوتا ہے۔

سیاسی اداروں، انتخابی کمیشن اور مجتمع کی سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو انتخابات میں شرکت کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ موہری پور کی عوام کو بھی اپنے فرائض اور حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ خواتین کے حقوق کی پہچان کریں اور ان کی شرکت کو فروغ دیں۔

سکالر ابلاغیات وسیم شہزاد کا تعلق ملتان سے ہے، وہ گزشتہ 8 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات ، تعلیم ، کلچر ادب ، سیاحت و آثار قدیمہ ، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے۔