رحیم یار خان مندر حملہ کیس: پولیس ناکام، پنجاب کی بیوروکریسی کوئی کام نہیں کرتی، سپریم کورٹ

Aug 06, 2021 | 12:33:PM
رحیم یار خان مندر حملہ کیس: پولیس ناکام، پنجاب کی بیوروکریسی کوئی کام نہیں کرتی، سپریم کورٹ
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سپریم کورٹ میں رحیم یار خان میں مندر پر حملے سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت۔ عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو واقعہ میں ملوث افراد کیخلاف کاروائی کا حکم دے دیا ۔عدالت پنجاب کی بیورو کریسی پر برہم۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے ملزمان کیخلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ مندر کی مرمت اور بحالی کیلئے پیسے ملزمان سے وصول کیے جائیں، آئندہ سماعت پر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔ دوران سماعت عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ پنجاب میں مذہبی ہم آہنگی کیلئے امن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ سماعت کے موقع پر آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جب مندر پر حملہ ہوا انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی۔  آئی جی پنجاب نے کہا کہ اے سی اور اے ایس پی موقع پر موجود تھے، انتظامیہ کی ترجیح مندر کے آس پاس 70 ہندو گھروں کا تحفظ تھا، مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کمشنر,ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو انکو فوری ہٹا دیں۔ایک 8 سال کے بچے کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا,اس واقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی،پولیس نے سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔ جسٹس قاضی امین نے آئی جی سے استفسار کیا کہ کیا کوئی گرفتاری کی گئی, جس پر  آئی جی نے بتایا کہ ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔  ایڈیشنل اٹارنی جنرل  سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے بھی معاملہ کا نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم اپنا کام جاری رکھیں قانونی معاملہ ہم دیکھیں  گے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی،چیف جسٹس نے کہا کہ واقعہ کو تین دن ہو گئے ایک بھی بندہ پکڑا نہیں گیا۔ جسٹس قاضی امین کہا کہ پھر پولیس خود ملزمان کی ضمانت اور صلح کروائے گی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واقعہ پر پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش و ولولہ نہیں، پنجاب پولیس میں پروفیشنل لوگ ہوتے تو اب تک معاملات حل ہو چکے ہوتے، ہندووں  کا مندر گرا دیا سوچیں ان کے دل پر کیا گزری ہوگی،سوچیں اگر مسجد گرا دی جاتی تو مسلمانوں کا کیا ردعمل ہوتا،پنجاب پولیس میں کوئی پروفیشنل بندا نہیں,8 سال کے بچے کو مبینہ توہین مذہب پر پولیس نے گرفتار کر لیا,کیا پنجاب پولیس میں کچھ عقل اور شعور نہیں,8 سال کے بچے کو کیا پتا کہ کون ہندو ہے کون مسلمان۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ8 سال کے بچے کو گرفتار کرنے والے ایس ایچ او کو فوری فارغ کریں۔ آئی جی نے کہا کہ ایس ایچ او کو معطل کر کے محکمانہ کارروائی کریں گے, اس جواب پر پر چیف جسٹس نے کہا کہ معطل کرنے سے تو سرکاری افسران کے مزے ہوجاتے ہیں, معطل کرنے سے تنخواہ ملتی ہے پھر کیا فائدہ ایسی معطلی کا۔ چیف جسٹس نے پنجاب کی بیوروکریسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا  پنجاب کی بیوروکریسی کوئی کام نہیں کرتی,اپنی زندگیاں انجوائے کرنے کے علاوہ بیوروکریسی کا کوئی کام نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب میں کمشنرز,ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی کارکردگی کیسے چیک ہوتی ہے,صوبائی انتظامیہ کو کون اسائنمنٹ دیتا ہے کچھ پتا نہیں۔اس موقع پر 

چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ محرم اور دیگر مذہبی تہواروں میں منافرت پھیلائی جاتی ہے,سوشل میڈیا پر منافرت بھرا مواد شیئر کیا جاتا ہے,پنجاب حکومت مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کرک میں مندر جلانے کے علاوہ دیگر واقعات میں عدالتی حکم کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا,ہماری پولیس اور انتظامیہ واقعہ ہوجانے کے بعد کام شروع کرتے ہیں,کیا ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا جس سے واقعہ ہونے سے پہلے اسے روک دیا جائے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں مسجد,امام بارگاہ اور مندر ساتھ ساتھ ہیں,امام بارگاہ میں لگے علم کو بھی جلایا گیا جس کی ایف آئی آر درج کر چکے ہیں,مندر,امام بارگاہ اور موٹر وے بند کرنے پر تین مقدمات درج کیے گئے ہیں, انہوں نےکہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ ویڈیو ثبوتوں کیساتھ تمام ملزمان کو گرفتار کریں گے,

لوگوں کو اکسانے والے عبدالرزاق سومرو تاحال گرفتار نہیں ہوئے۔ سماعت کے دوران رمیش کمار رہنما ہندو کونسل نے عدالت کو بتایا کہ آٹھ سالے کے بچے کو مارا گیا جس کیوجہ سے مسجد میں اس کا پیشاب نکل گیا,مقامی لوگوں نے واقعہ کو حقیقت کے بالکل برعکس پیش کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں معلومات کے سوا کچھ نہیں,تین دن گزر گئے کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ تمام مذاہب کی سپریم کورٹ ہے،سپریم کورٹ تمام مذاہب کے شہریوں کے حقوق کی ضامن ہے۔ عدالت نے کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کیلئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں,یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں،سپریم کورٹ نےکمشنر رحیم یار خان کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

کیس کی سماعت 13 اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بددماغ بھارتی خاتون کا غریب ٹیکسی ڈرائیور پر تشدد، لوگ حیران۔۔ ویڈیو وائرل