دل ٹوٹنے کی بیماری‘ کیا ہے اور یہ کیسے ہوتی ہے ؟ ماہرین کا تہلکہ خیز انکشاف

Jun 05, 2022 | 11:51:AM
دل ٹوٹنا،بیماری،ماہرین،انکشاف
کیپشن: کسی عزیز ہستی سے محروم ہو جانے یا بری خبر ملنے کے بعد دل ٹوٹنے سے کسی کی موت واقع ہو سکتی ہے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) دل ٹوٹنا ایک باقاعدہ بیماری ہے جسے تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی سنڈروم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دل کی ایسی عارضی حالت ہے جو انتہائی جذباتی یا جسمانی دباؤ کے نتدیجے میں ہو سکتی ہے۔ اس حالت کے بارے میں پہلے 1990 میں جاپان میں بتایا گیا تھا اور ’تاکت سوبو‘کا لفظ ایک برتن کے نام سے آیا ہے جسے جاپانی ماہی گیر آکٹوپس پکڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

 یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب آپ کے دل کا بایاں خانہ جو خون پمپ کرنے کا بڑا چیمبر ہے، وہ شکل تبدیل کر کے سائز میں بڑا ہو جاتا ہے جس سے دل کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور خون پمپ کرنے کی دل کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بائیں خانے کا بالائی حصہ تنگ اور نیچے کا حصہ گول ہو جاتا ہے جس سے یہ آکٹوپس کے جال جیسا دکھائی دیتا ہے۔

 محققین کے مطابق دل ٹوٹنے کا عارضہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں 90 فیصد سے زیادہ ایسی خواتین کے تھے جن کی عمر 58 سے 75 سال کے درمیان تھی۔

 یہ بھی پڑھیں:ضمانت منسوخ ہونے پرعمران خان کی سیکیورٹی ہی انہیں گرفتار کرلے گی: رانا ثنااللہ

ہارورڈ میڈیکل سکول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ فیصد تک ایسی خواتین جن پر دل کا دورہ پڑنے کا شبہ ہوتا ہے، وہ دراصل تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی کا شکار ہوتی ہیں۔

 اس حالت سے جڑے دباؤ کے عوامل میں محبوب کی جدائی، سنجیدہ حادثہ، قدرتی آفت مثال کے طور پر زلزلہ یا اچانک بیماری شامل ہو سکتی ہے۔

 سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شدید تکلیف اور دباؤ کے ہارمونز مثلاً ایڈرینالین کی مقدار میں اضافہ دل کو ’حیرت زدہ‘ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جس نتیجہ دل کے پٹھوں کے خلیوں، دل کی شریانوں یا دونوں میں تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے۔

 یہ تبدیلیاں دل کے بائیں خانے کو مؤثر اندازمیں سکڑنے سے روک دیتی ہیں اس طرح یہ اتنی اچھی طرح خون پمپ نہیں کر پاتا جتنی اچھی طرح اسے کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کیس: پنجاب پولیس کو بڑی کامیابی مل گئی

تاہم تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی کی علامات دل کے دورے سے تقریباً ناقابل امتیاز ہیں جس کی وجہ لوگ غلط سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی شکار نہیں ہوئے بلکہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔

 بڑی علامات میں سینے میں اچانک، شدید درد اور دم گھٹنا شامل ہے۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق بعض لوگوں کو دوسری علامات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ دل کی دھڑکن میں اضافہ، بیماری محسوس کرنا یا بیمار ہونا۔

 اس کیفیت کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب طبی ٹیسٹ دل کے دورے اور دل سے تعلق نہ رکھنے والے مسائل کو مسترد کر دیں اور اگر آپ کے دل کے بائیں خانے کی شکل تبدیل ہو جائے جس سے آپ کا دل کا پٹھا کمزور دکھائی دینے لگے یا خون کو مناسب انداز میں پمپ کرنے کے قابل نہ رہے۔

 ان ٹیسٹوں میں الیکٹروکارڈیوگرام (ای سی جی)، خون کا ٹیسٹ، ایکوکارڈیوگرام، کارڈیئک میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر آئی) یا ایجیوگرام شامل ہو سکتے ہیں۔

 تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی عام طور پر عارضی حالت ہوتی ہے اور چند ہفتوں میں صورت حال معمول پر آ جاتی ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کو اس وقت تک ہسپتال میں رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں جب تک کہ وہ صحت یاب ہونا شروع ہو نہ ہو جائیں۔

 تاہم امریکہ کے مشہور طبی ادارے میو کلینک کا کہنا ہے کہ ٹوٹا دل سنڈروم شاذ و نادر کیسز میں موت کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ کسی عزیز ہستی سے محروم ہو جانے یا بری خبر ملنے کے بعد دل ٹوٹنے سے کسی کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

 ایک مشہور مثال ہالی ووڈ کے بڑے نام ڈیبی رینلڈز کی ہے جو 2016 میں 84 سال کی عمر میں چل بسی تھیں۔

 ڈیبی رینلڈز کی بیٹی کیری فشر کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی تھی جس کے ایک دن بعد رینلڈز کو جان لیوا دورہ پڑا۔ مرنے سے پہلے رینلڈز نے بیٹے ٹوڈفشر کو بتایا کہ وہ ’کیری کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔‘

 2003 میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا کہ دل کے ٹوٹ جانے نے موسیقی لیجنڈ جونی کیش کی موت میں بھی کردار ادا کیا۔

 مئی 2003 میں دل کے آپریشن کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بیوی جون کارٹر کی موت کے چار ماہ بعد کیش چل بسے تھے۔ اگرچہ کیش کی موت ذیابیطس کی بیماری کے سبب پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے ہوئی، اس جوڑے نے شادی شدہ زندگی کے 35 سال گزارے تھے اور کیش کا کہنا تھا کہ بیوی کے موت کے بعد ’اس کے جانے کے درد اتنا زیادہ ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔‘