عمرانی بیانیے کا ہدف، آرمی چیف کی تقرری

احمد منصور | خان صاحب کی غیر سیاسی، غیر جمہوری، غیر آئینی سیاست کو روکنے میں پوری ریاست ناکام ثابت ہو رہی ہے تو اس کا حل کیا ہے؟کیا سب بے بس ہو چکے ہیں؟ کیا عدلیہ، پارلیمان،اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب صرف منت ترلہ ہی باقی بچا ہے یا خدانخواستہ وہ ہی آزمودہ نسخہ۔۔۔۔

Nov 02, 2022 | 14:35:PM
عمران خان, تحریک انصاف , آرمی چیف , لانگ مارچ ,24 نیوز
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

بدھ دو نومبر کی سہ پہر جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا لانگ بلکہ پارٹ ٹائم لانگ مارچ گوجرانوالہ میں گھوم رہا ہے ، مقاصد کھلتے چلے جا رہے ہیں بلکہ کہا جائے کہ اب سب کچھ سامنے ہے۔ یہ سرا سر عمران خان کے پارٹ ٹائم لانگ مارچ کی فل ٹائم بلیک میلنگ ہے جو جاری ہے۔ان کی ساری کی ساری سیاست آرمی چیف کی تقرری کے گرد گھوم رہی ہے، اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ خان صاحب کے نزدیک صرف اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوا کر ہی سیاسی فائدے حاصل ہو سکتے۔

اس ضمن میں تحریک انصاف کے سربراہ کے مسلسل بیانات ثابت کر چکے ہیں کہ ان کی سیاست میں کچھ جمہوری نہیں، جمہوریت کی بجائے صرف بیک ڈور سیاست سے ہی پاور حاصل کرنا چاہتے ہیں جیسے وہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پاور میں آئے اور انہیں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ آتا ہی نہیں، حیران کن امر یہ بھی ہے کہ محض دس گیارہ ماہ بعد انتخابات ہونے ہی ہیں مگر پاور پالیٹکس کا نشہ ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا، شاید سمجھ بیٹھے ہیں کہ جیسے پہلے اقتدار میں آیا اب یہ میرا حق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا اپنی غلطی تسلیم کرنے اور ہر صورت میں اپنے اے پولیٹیکل آئینی کردار کو نبھانے کے فیصلے کو عمران خان ہضم ہی نہیں کر پا رہے۔ الیکشن ہوں یا مذاکرات، ان کو لگتا صرف اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی خواہشات پوری کر سکتی۔ اسی یقین کی وجہ سے اب ہر تقریر میں، ہر بیان میں کھلے عام کہنا شروع ہو چکے ہیں کہ وہ جمہوری قوتوں سے نہیں صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کر رہے ہیں، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ برائی کی جڑ اور اس میں اپنے کردار سے توبہ تائب ہوتی نہ صرف نظر آ رہی ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی پالیسی کو عوام کے سامنے بھی لے آئی ہے۔ تو کیا ایک لیڈر جو ملک کی جمہوری، آئینی نظام کے کھلے عام درپے ہو چکا ہے، اسے نہ پارلیمان کے کردار سے کوئی واسطہ نہ ہی عدلیہ کو اس کا مقام دینے پر قائل نظر آ رہا۔ تو کیا اس شخص کی غیر جمہوری سوچ کو قابو کرنے کا حل کسی کے پاس نہیں؟، عدلیہ ریاست کا واحد ایسا ستون بچا ہے جہاں سے اس غیر جمہوری سیاسی عفریت کو ملک، اداروں،ریاست کو مزید نقصان پہنچانے سے روکا جا سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں : حقیقی آزادی کیلئے نکلے ’’انقلابی‘‘ ناشتے پر لڑپڑے

مزید کسی ثبوت کی کیا ضرورت ہے ، کیا پارٹ ٹائم لانگ مارچ کی تقریروں سے عمران خان مزید بے نقاب نہیں ہو چکے، جب وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کو ٹھہراتے، آئین میں فوج کا تو احتساب سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، مگر عمران خان چاہتے اسٹیبلشمنٹ اس کی اپوزیشن کو پھانسی چڑھا دے، کیاخان صاحب سے نہیں پوچھا جا سکتا کہ آپ فوج کو کس آئینی کردار کے تحت احتساب کے لیے کہہ رہے، حالت یہ ہے کہ جب اس شخص کو خود اپنی اہلیہ اور گھر کے کرپشن میں ملوث ہونے کی بابت بتایا گیا تو کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن خود احتساب کی بات کر رہا۔ ایسا شخص جس کی اہلیہ تمام چالیں چل رہی،سوشل میڈیا کمپیئن چلا رہی، وہ دوسروں کے احتساب کی بات کر رہا، ایسا شخص جوریاستی اداروں کو کمزور کرنے کا بھارت اور دوسروں کا کام پورا کر رہا وہ ملک میں سیاسی استحکام کی بات کیسے کر رہا۔ یہ کیسا شخص ہے جس کی اپنی ذات ہر اس اصول سے مبرا ہے جو وہ دوسروں پر لاگو کرنا چاہتا۔ خان صاحب کی غیر سیاسی، غیر جمہوری، غیر آئینی سیاست کو روکنے میں پوری ریاست ناکام ثابت ہو رہی ہے تو اس کا حل کیا ہے؟کیا سب بے بس ہو چکے ہیں؟ کیا عدلیہ، پارلیمان،اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب صرف منت ترلہ ہی باقی بچا ہے یا خدانخواستہ وہ ہی آزمودہ نسخہ 

نوٹ : لکھاری کے یہ ذاتی خیالات ہیں ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ