ڈینیئل پرل کیس ، ملزم احمد عمر شیخ کو جیل سے ریسٹ ہاﺅس منتقل کرنے کا حکم،دن بھر اہل خانہ بھی ساتھ رہ سکیں گے

Feb 02, 2021 | 17:07:PM
 ڈینیئل پرل کیس ، ملزم احمد عمر شیخ کو جیل سے ریسٹ ہاﺅس منتقل کرنے کا حکم،دن بھر اہل خانہ بھی ساتھ رہ سکیں گے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

   (24نیوز)سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکال کرچند دن جیل میں کسی کھلے کمرے اور پھر سرکاری ریسٹ ہائوس منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے احمد عمر شیخ کی جانب سے رہائی کے باوجود بدستور قید کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔دوران سماعتعدالت نے حکم دیا کہ احمد عمر شیخ کو سکیورٹی کے ساتھ ریسٹ ہائوس میں رکھا جائے ۔ ان کے اہلِ خانہ عہبھی صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ان کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوگی۔
 عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ دی جائے اور ان کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کیا جائے۔
 دورانن سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستانی قوم گزشتہ 20 برسوں میں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئی، آرمی پبلک اسکول اور مچھ جیسے سانحات دنیا میں کہیں نہیں ہوئے۔ احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، احمد عمر شیخ پاکستان کی عوام کے لئے خطرہ ہیں۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ احمد عمر شیخ کا دہشت گردوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں، جن کارروائیوں کا ذکر کیا ان سے احمد عمر شیخ کا تعلق کیسے جڑتا ہے؟جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ احمد عمر 18 سال سے جیل میں ہے، دہشت گردی کے الزام پر کیا کارروائی ہوئی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست سمجھتی تھی احمد عمر کے خلاف ڈینیئل پرل قتل کیس مضبوط کیس ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سندھ حکومت نے ہائی کورٹ میں وفاق کو نوٹس نہ ہونے پر اعتراض کیا تھا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہائی کورٹ میں وفاق کے نہ ہونے کا اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ملزموںکی حراست بظاہر صوبائی معاملہ لگتا ہے، وفاق نے اپنا اختیار صوبوں کو تفویض کر دیا ہے، بظاہر تو صرف ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس دینا بنتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے قانون کو چیلنج نہیں کیا کہ جس پر اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا جاتا، بظاہر اٹارنی جنرل کا اعتراض نہیں بنتا کہ انہیں کیوں نوٹس جاری نہیں ہوا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس ملزموں کو حراست میں رکھنے کا مواد نہیں تھا تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کے پاس مواد ہو سکتا ہے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ وفاق نے وہ مواد صوبے کو فراہم کیوں نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے اٹارنی جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجوہات نہیں پڑھیں، بدنیتی یہ تھی کہ بار بار حراست میں رکھنے کے احکامات جاری ہوتے رہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے، الزام تو اغوا کا تھا، کسی کو حراست میں رکھنے کا مطلب 'نو ٹرائل' ہوتا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قتل کی ویڈیو میں بھی چہرہ واضح نہیں تھا۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں پیش کرنے کے لئے سندھ پولیس سے بھی ریکارڈ حاصل کر رہے ہیں اور استدعا کی کہ کیس میں آئندہ ہفتے تک حکم امتناع دیا جائے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کس بنا پر حکم امتناع دیا جائے؟ بغیر شواہد کسی کو دہشت گرد قرار دینا غلط ہوگا اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی کہ حکم امتناع کے لئے آج ہی پانچ منٹ میں اپنے دلائل دیں۔
جسٹس منیب اختر نے حکم دیا کہ حکومتِ سندھ احمد عمر شیخ کو 2 سے 3 روز کےلئے جیل میں کسی کھلی جگہ پر رکھے اور اس کے بعد کراچی میں ہی کسی نجی جگہ پر احمد عمر شیخ کو اس کے اہلخانہ کے ساتھ ٹھہرائے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہماری معلومات کے مطابق احمد عمر شیخ کے اہل خانہ لاہور میں رہتے ہیں، کیا احمد عمر شیخ کے اہل خانہ کو کراچی لانے اور ٹھہرانے کے اخراجات بھی سندھ حکومت برداشت کرے گی؟جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ اگر عدالت کا حکم ہو تو اخراجات اور انتظامات سندھ حکومت ہی کرے گی۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کے لیے مہلت دینے کی استدعا منظور کرلی۔اٹارنی جنرل نے پھر استدعا کی کہ احمد عمر اور دیگر کو رہا کیا تو غائب ہو جائیں گے، زمینی حقائق تقاضا کرتے ہیں کہ رہائی کے احکامات معطل کیے جائیں۔
خیال رہے کہ 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کو بری اور رہا کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔تاہم حکومت سندھ کی جانب سے اگلے ہی روز اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل بھی دائر کردی گئی تھی۔