بلی نما جانور کے فضلے  سے بننے والی دنیا کی مہنگی ترین کافی

May 31, 2024 | 16:19:PM
دنیا کی سب سے مہنگی کافی درحقیقت ایک جانورکے فضلے میں موجود بیجوں سے بنائی جاتی ہے جسے کوپی لواک  کافی کہا جاتا ہے جس کی ایک کپ کی قیمت 800 ڈالر تک ہے جوکہ پاکستانی روپوں میں 2لاکھ 22 ہزار 400 کے لگ بھگ ہے
کیپشن: file photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)  دنیا کی سب سے مہنگی کافی درحقیقت ایک جانورکے فضلے میں موجود بیجوں سے بنائی جاتی ہے جسے کوپی لواک  کافی کہا جاتا ہے جس کی ایک کپ کی قیمت 800 ڈالر تک ہے جوکہ پاکستانی روپوں میں 2لاکھ 22 ہزار 400 کے لگ بھگ ہے.

کافی دنیا کا مشہور مشروب ہے جس کی نمایاں اقسام میں بلیک، ایسپریسو،  کیفے لائے، کیپو چینو،  کیفے موچا سمیت دیگر شامل ہیں مگر یہاں دنیا کی ایسی  مہنگی ترین کافی کی بات کی جا رہی ہے  جو  اپنے اندر بہت سی عجیب باتیں رکھتی ہے جن کے بارے میں آپ کو جان کر حیرانگی  کیساتھ ساتھ کراہت بھی ہوگی۔

 اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے   مارننگ شو "مارننگ وِد فضا"  میں فضا علی نے دنیا کی مہنگی ترین کافی کے پیچھے  ’سیوٹ کیٹ‘ اور کافی کا  ناقابل یقین تعلق کا ذکر  کرتے ہوئےبتایا کہ  سیوٹ کیٹ  بلی کی ایک قسم ہے جس کو مشک بلاؤ یا جنگلی بلی بھی کہا جاتا ہے اس کی جسامت بلی جیسی جبکہ چہرہ کسی حد تک نیولے سے مشابہہ ہوتا ہے ۔ سیوٹ کیٹ ایشیا اور افریقہ کے جنگلوں میں رہتی ہے یہ چیری سمیت دوسرے پھل شوق سے کھاتی ہے تاہم گوشت خور بھی ہے اس لیے کیڑے مکوڑے، مینڈک، چھوٹے سانپ اور چھپکلیاں وغیرہ چٹ کرنے میں بھی طاق ہے۔

تفصیلات کے مطابق  19 ویں صدی میں ڈچ ایمپائر نے انڈونیشیا میں کافی کے باغات لگائے چونکہ وہاں سیوٹ کیٹ بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے اس لیے انہوں نے کافی کے بیج کھانا شروع کیے اور فُضلہ بھی انہی باغات میں خارج کرتی ہیں۔ زرعی علاقوں میں سیوٹ کیٹ کا فضلہ جمع کرنے کے لیے باقاعدہ کارکن رکھے جاتے ہیں جو مختلف علاقوں سے اسے اکٹھا کر کے مرکزی مقام یا گودام تک پہنچاتے ہیں جہاں اس کو دھویا جاتا ہے اور اچھی طرح صاف کرنے کے بعد دھوپ میں یا مشینوں کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے۔ اس کی شکل بلی کے فضلے جیسی ہی ہوتی ہے تاہم اس میں کافی کے ادھ کھائے اور پورے دانے نظر آتے ہیں۔ خشک ہونے کے بعد اس کو بعض دیگر مراحل سے گزار کر پیس لیا جاتا ہے اور تب یہ پانی یا دودھ میں ڈال کر پینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔

 ماہرین کے مطابق  سیوٹ کیٹ جو بیج کھاتی ہے ان کو پوری طرح ہضم نہیں کر پاتی اور بیجوں میں موجود پروٹینز کی ساخت تبدیل کر دیتی ہیں، جس سے ان میں پائی جانے والی تیزابیت میں کمی آتی ہے جبکہ جسم سے ایسے اجزا بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں جو اس کے ذائقے کو ایک خاص رخ میں تبدیل کر دیتے ہیں جسے زیادہ تر لوگوں کی جانب سے  پسند کیا جاتا ہے۔ 

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ نظام انہضام سے گزرنے کے باوجود جب فضلے کو دھو کر خشک کر لیا جاتا ہے تو اس میں مضر صحت اجزا شامل نہیں ہوتے بلکہ عام کافی کی طرح کیفین وغیرہ ہی ہوتے ہیں تاہم اس کا ذائقہ عام کافی سے اچھا خاصہ مختلف ہوتا ہے۔ انڈونیشیا میں سیاحت بڑھنے کی ایک وجہ سیوٹ کیٹ کو بھی سمجھا جاتا ہے وہاں لوگ اس سمیت دوسرے جانور دیکھنے اور کوپی لواک کو پینے کیلئے بھی جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر قریبی ممالک میں بھی سیوٹ کیٹ پائی جاتی ہے اور گزشتہ برس اپریل میں جس جانور نے پارلیمنٹ ہاؤس میں گھس کر عملے کی ہی نہیں میڈیا والوں کی بھی دوڑیں لگوا دی تھیں اور بات ’خطرناک جنگلی جانور‘ سے ہوتی ہوئی ’بیرونی سازش‘ اور ’بدشگونی‘ جیسے تجزیوں تک پہنچی تھی۔ جس کے بعد محکمہ جنگی حیات کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ وہ بھی سیوٹ کیٹ ہی تھی جو ایک  جانور ہے جس کو بعدازاں ’حراست‘ میں لے لیا گیا تھا۔