بھارت سے تجارت کی تویہ کشمیریوں سے غداری ہوگی ، وزیراعظم

May 30, 2021 | 18:17:PM
بھارت سے تجارت کی تویہ کشمیریوں سے غداری ہوگی ، وزیراعظم
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

  (24نیوز)وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ بھارت سے اِس وقت تعلقات بہتر کرنا کشمیری شہدا کے خون سے غداری ہوگی، کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی،پی ڈی ایم عوام کےلئے کھڑی ہوتی اب تک ہماری حکومت گرا چکی ہوتی ،یہ اپنی کرپشن بچانے اور اپنی ذات کےلئے میل کر کے کیسز ختم کروانا چاہتے ہیں ، عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں ،عوام ان کی باتوں میں نہیںآئیں گے۔
 اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے ”آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ “کے عنوان سے عوام سے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہاکہ میں اپنی قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانیاں پیدا کرتا ہے اور مشکل وقت میں اللہ چاہتا ہے کہ ہم صبر کریں۔انہوں نے کہا کہ زندگی اونچ نیچ کا نام ہے، اصل زندگی وہ ہوتی ہے کہ جدوجہد کرکے اوپر جاتے ہیں اورمشکل وقت میں پیچھے چلے جاتے ہیں پھر سیکھتے ہیں، جو مشکل وقت سے ہار مانتا ہے وہ ہار جاتا ہے، جو مشکل وقت سے سیکھتا اور محنت ہے وہ مضبوط ہوتا ہے، یہ زندگی کا سائیکل ہے۔
عمران خان نے کہاکہ مشکل وقت میں حکومت ملی، کبھی کسی حکومت کو اتنے مسئلے مسائل نہیں ملے جتنے ہماری حکومت کو 2018 میں ملے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب تک آمدنی نہیں بڑھتے مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے اسی لیے پہلے دن اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہمیں ایک مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم نے کہاکہ جب ایک ملک دیوالیہ ہوجائے تو اس کو اپنے آپ کو اٹھانے کے لیے وقت چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کامیابی ملی ہے اس پر مجھے خوشی ہے کیونکہ کوئی یہ امید لگا کر نہیں بیٹھا تھا کہ تقریباً 4 فیصد گروتھ ہوگی بلکہ کئی ماہر سمجھتے ہیں کہ ساڑھے 4 فیصد یا اس سے بھی اوپر جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ جو ہم سوچ رہے تھے اور خاص کر ہمارے مخالف جو سوچ رہے تھے اس سے زیادہ تیزی سے ہم اوپر گئے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کی سب سے زیادہ دو مشکلیں مہنگائی اور بے روزگاری ہے، جیسے گروتھ ریٹ بڑھتی ہے، معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوتا ہے، گاڑیاں بنی شروع ہوتی ہیں جو 55 فیصد گاڑیوں کی فروخت ہوئی۔عمران خانے کہاکہ ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں کی فروخت مزید 60 بڑھ گئی ہے، جب یہ بننے شروع ہوتے ہیں تو روزگار ملتا ہے اور غربت کم ہوتی ہے، یہ پہلا ایک خوش آئند قدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری اپوزیشن جس نے پہلے دن کہا کہ یہ نااہل ہیں انہیں نکال دینا چاہیے حالانکہ ہم شروع ہوئے تھے اور انہیں مشکلات کا پتہ تھا۔اپوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کہااگر ہمیں این آر او دے دو گے تو آپ نااہل نہیں ہوگے، این آر او نہیں دو گے تو حکومت نہیں چلنے دیں گے، پاکستانی فوج کو کہتے ہیں منتخب حکومت کو گرادو۔وزیر اعظم نے کہاکہ کہتے ہیں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، کوئی ثبوت بھی نہیں دیا، ہم نے پچھلے الیکشن میں کہا تھا کہ ہم نے 4 حلقوں کا بتایا تھا لیکن اب وہ پھنس گئے ہیں کہ اتنی نااہل حکومت تھی تو اتنی 4 فیصد شرح نمو کیسے آگئی کیونکہ انہوں نے خود کہا کہ نااہل ہو پھر پھنس گئے ہیں تو کہتے ہیں آپ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اللہ ہمیں بڑے مشکل وقت اور امتحان سے گزارا ہے اور اب ان شااللہ اس ملک کو مزید آگے بڑھتے دیکھیں گے۔ایک سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ ہم نے ایک بورڈ بنایا ہے کہ ملک میں اتنی زیادہ ہاو¿سنگ سوسائیٹیز بنی ہیں ان کا پتہ لگائے کہ کون سی قانونی اور کون سی غیرقانونی ہیں اور یہ سب ویب سائٹ پر آئے گا تاکہ لوگوں کے ساتھ دھوکا نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ اگر ہاو¿سنگ سوسائیٹز شرائط پوری نہیں کریں گی تو انہیں منظوری نہیں دی جائے گی، پھر مختلف غیرقانونی سوسائیٹیز کو بند کردیں گے اور ایسی غیرقانونی سوسائیٹیاں جہاں لوگ اب رہنے لگے ہیں تو اس کے لیے الگ نظام لے کر آرہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عظمت کی زیر سرپرستی ایک کمیٹی بنائی ہے جو باقاعدہ کیٹگرائز کررہی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی زمینیں بیچ دیں اور ان کے پاس پلاٹس نہ ہو پھر وہ پیسے لے کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسے بچنے کے لیے پورا کریک ڈاو¿ن کر رہے ہیں۔خارجہ امور کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بات کروں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، ایک طرف ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دوسری طرف بھارت ایک ارب سے زائد آبادی کے ساتھ بڑی مارکیٹ ہے، تو ہمارے رابطے ہوں اور تجارت شروع ہوجائے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے، جب یورپی یونین بنی تھی تو سب کو فائدہ ہوا تھا۔
 عمران نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، اسی لیے میں نے حکومت میں آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہوں، ایک ہی مسئلہ کشمیر ہے جس کو بات چیت سے حل کریں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ اگر ہم اس وقت بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ان کی ساری جدوجہد اور تقریباً ایک لاکھ شہدا کو نظر انداز کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیر کا خون ضائع ہوجائےگا لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ انہوں نے کس قسم کی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، اس لیے ان کے خون پر پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہوسکتا۔انہوںنے کہاکہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائیں تو پھر بات ہوسکتی ہے پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ایک روڈ میپ لاسکتے ہیں اور بات بھی کرسکتے ہیں۔

فلسطین پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کی طرح ہے، وہاں بھی ان کی زمینوں پر قبضہ ہے، تاہم کشمیر میں ابھی شروع ہوا ہے جہاں ان کی زمینوں کی ملکیت تبدیل کر رہے ہیں، یعنی باہر سے لا کر کشمیر میں لوگوں کو بسا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح فلسطین تھوڑا سا رہ گیا ہے باقی سب پر اپنے لوگ لا کر بسایا اور قبضہ کرلیا ہے، فلسطین میں لوگوں کو ڈرا کر خوف سے دبائیں گے کیونکہ ان کے پاس طاقت ور فوج ہے لیکن یہ حل نہیں ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا ظلم کریں گے کہ وہ چپ کرکے غلام بن جائیں گے، سب کو پتہ ہے یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ دو حل ہیں یا تو پھر یہ ان کو جس طرح مسلمان اور یہودیوں کو آج سے 5،6 سو سال پہلے اسپین سے سب کو نکال دیا تھا، نسلی بنیادوں کا خاتمہ کردیا تھا، یا تو یہ وہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ جو ساری دنیا دیکھ رہی ہے، دنیا میں پہلی دفعہ شعور آیا ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے امریکا جیسی جگہ پر پہلی دفعہ لوگ شروع ہوگئے ہیں کہ فلسطین میں لوگوں پر ظلم ہورہا ہے، مغرب میں ایسا نہیں کہا جاتا تھا تو اس لیے وہ تو ہو نہیں سکتا،یا پھر ان کو دو ریاستی حل نکالنا ہوگا یعنی فلسطینیوں کو منصفانہ گھر دینا پڑے گا، میرے خیال میں اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا میں جو شعور اور جس طرح کی تحریک چل پڑی ہے، یہ تحریک فلسطینیوں کو ایک حل دینے کی طرف جائےگی۔وزیراعظم نے ایک سوال پر کہا کہ سارے پاکستان میں پانی کا مسئلہ ہے، پاکستان میں 10 ڈیم بنا رہے ہیں جو شروع ہوچکے ہیں جو اگلے دس سال تک مکمل ہوں گے۔وزیر اعظم نے کہاکہ ہمیں پانی کے ذخائر بہت پہلے بنانے چاہیے تھے کیونکہ جیسے آبادی بڑھتی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی میں بھی کمی آرہی ہے تو صوبوں کے حصے کےپانی میں بھی کمی آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے طریقہ یہ ہے کہ پہلے ڈیم بنائے جائیں اورپھر صوبوں میں منصفانہ تقسیم ہو، مجھے حیرت ہے کہ ٹیلی میٹری سسٹم کام نہیں کر رہا ہے، اس ٹیکنالوجی پر ہم خرچہ کر رہے ہیں جو کام شروع کردے گا۔انہوںنے کہاکہ صوبوں کے اندر بھی پانی کی تقسیم بھی مسئلہ ہے کیونکہ کمزور کسان کا پانی چوری ہوتا ہے، طاقت ور اپنی زمینوں کو پانی لے جاتا ہے اور کمزور کی زمین خشک رہ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ان صوبوں میں جہاں ہماری حکومت ہے وہاں یہ اقدامات کریں گے لیکن سندھ کی حکومت کو خود کرنا ہے اور اگر انہیں رینجرز کی ضرورت پڑی تو وہ بھی دیں گے کیونکہ سندھ کی حکمران جماعت کے رکن اسمبلی نے اپنی تقریر میں کہا تھا۔رنگ روڈ کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ راولپنڈی کو رنگ روڈ کی اشد ضرورت ہے، یہ اچھا منصوبہ ہے کیونکہ پنڈی سے باہر بہت ٹریفک جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم راولپنڈی کے اندر نالہ لئی کے اندر پوری ایک بزنس ڈسٹرکٹ بنانا چاہتے ہیں یعنی یہ پنڈی کی ری جنریشن ہے، اس کے لیے بھی ضروری ہے رنگ روڈ بنے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے ورکرز میں سے کسی نے خبر دی کہ رنگ روڈ میں بڑا فراڈ ہو رہا ہے، ایک تو طاقت ور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے طویل کیا جار رہاہے اور دوسرا اس کی الائمنٹ کی ہے وہ خطرناک ہے جو لوگوں کو فائدہ دینے کے لیے کی گئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس کے لیے پہلے میں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے ذریعے انکوائری کی تو پتہ چلا کہ ایسا ہی ہے، اب اینٹی کرپشن کی ٹیم کام کر رہی ہے اور دو ہفتے کے اندر انکوائری کارزلٹ آئے گا پھر اہم ایکشن لیں گے۔ انہوںنے کہاکہ رنگ روڈ کی تعمیر رکے گی نہیں اور جس طرح اس کو سیدھا ہونا چاہیے تھا اسی طرح ہوگا جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے طویل کی گئی تھی وہ نہیں ہوگی اور ہم فوری طور پر اس میں کام کر رہے ہیں۔زراعت پر بات کرتے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے زراعت میں آکر بڑے اقدامات کیے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں فنڈز دئیے۔وزیراعظم نے کہاکہ بڑا مسئلہ زرعی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانے کا تھا، جتنا فائدہ کسان کو ہوگا اتنا زیادہ پیسہ وہ اپنی زمین پر لگائے گا تو پیداوار زیادہ ہوگی۔وزیراعظم سے ایک خاتون کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ کیا صحت کارڈ قابل عمل ہے کیونکہ ہسپتالوں میں لوگوں کے کارڈ تسلیم نہیں کیے جاتے۔خاتون کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوگوں کو ابھی اس کی عادت نہیں پڑی ہے اس لیے مسئلے ہیں، لوگوں کو نہیں معلوم کہ صحت کارڈ کتنی بڑی نعمت ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایک خاندان کو صحت کارڈ میں 10 لاکھ روپے ہیں، وہ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر 10 لاکھ خرچ تک کوئی بھی علاج کروا سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پنجاب میں ساہیوال اور ڈیرا غازی خان ڈویژن میں سب کو صحت کارڈ دے دیا ہے اور رواں سال کے اختتام پر پنجاب کے تمام اضلاع میں صحت کارڈ پہنچ جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ صحت کارڈ صرف ایک کارڈ نہیں بلکہ صحت کا نظام ہے کیونکہ حکومت کے پاس کبھی اتنا پیسہ نہیں آئے گا کہ ملک بھر میں ہسپتالوں کا جال بچھائے، اس لیے نجی ہسپتالوں کی ضرورت ہے اور سارے غریب لوگوں کے پاس کارڈ ہوگا اور وہ کسی بھی ہسپتال سے علاج کروا سکتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہاکہ ہم اوقاف، ریلوے اور دیگر سرکاری زمینیں ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے دیں گے تاکہ ان کو زمینیں خریدنے میں جو مسائل ہیں وہ حل ہو اور آنے والے دنوں میں اس سے پرائیویٹ ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا اور یہ صحت کا نظام ہے۔شرح نمو کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اب تک 4 ہزار 143 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوا ہے، ہمارا نظام آٹومیشن پر جارہا ہے، ڈھائی سال سے ٹیکس وصولی کمپیوٹرائز کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ ٹیکس جمع کرنے والے اور ٹیکس دہندہ کے درمیان رابطہ نہ ہو بلکہ آٹومیٹک وصولی ہو اور یہ کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اب تک بڑی کوششیں کی گئی تاہم بدقسمتی سے آٹومیشن ہونے نہیں دی گئی، کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ یہ نظام چاہتے نہیں ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز میں آٹومیشن کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس کے اندر سے لوگ اسٹے آڈر لے کر رکاوٹ بن جاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اب مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ جولائی،اگست تک آٹومیشن پر چلے جائیں گے، اگر آٹومیشن پر چلے گئے اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم آگیا تو بلیک پر ٹیکس نہیں دینے والوں کا سب پتہ چل جائے گا۔انہوںنے کہاکہ میرا یہ ایمان ہے اسے ہماری ٹیکس وصولی اور اوپر جائے گی، جس سے ہمارے اوپر قرضوں کا بوجھ کم ہوجائے گا اور ہمارے پاس اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسہ ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک ادارے کو بنانا وقت لگتا ہے، نیا ادارہ کھڑا ہونا بڑا جلدی ہوتا ہے تاہم ایک خراب ہوئے ادارے کو ٹھیک کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ انہوںنے کہاکہ پنجاب کے سابق آئی جی عباس خان نے 1993 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انہوں نے کہا کہ 25 ہزار لوگوں کو میرٹ کے بغیر بھرتی کیا گیا، زیادہ تر لوگوں کو پیسے لے کر بھرتی کیا گیا اور ان میں سے کئی بڑے کریمنلز تھے۔انہوں نے کہاکہ پولیس کو جب غلط چیزوں کے لیے استعمال کریں گے تو کیا خیال ہے پولیس ٹھیک چلے گی، جب آپ اس کومخالفین کے لیے استعمال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس نے کتنے ماورا قانون پولیس مقابلے کے نام پر کتنے لوگ مارے اورپتہ لگوائیں ان کے دور میں کتنے لوگ مروائے گئے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب پولیس سے غلط کام کروائیں گے تو پھر یہ خود بھی غلط کام کریں گے، قبضہ گروپ کیسے بنے، ان کی پشت پر کون تھا، ابھی حکومت پنجاب نے قبضے چھڑائے ہیں، ان میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل تھے، جس کا کام تھاچھڑانا وہ پولیس ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔انہوں نے کہا جب طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے الگ قانون ہوگا تو پولیس ٹھیک کام نہیں کرسکتی لیکن ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، پنجاب میں پولیس ٹھیک ہوگی اور لوگ خیبر پختونوا کی طرح اس کی تعریف کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب ملک کی لیڈرشپ اخلاقیات کو تباہ کرتی ہے تو وہ سارے معاشرے کو نیچے لے جاتی ہے، جنگیں ہارنے سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں، معاشی بحران سے بھی قومیں تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقیات ختم ہوں تو معاشرہ بگڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسکولوں کے اندر 7، 8 اور9ویں کلاس میں رول ماڈلز کا کریکٹر بتائیں گے، جب ہم سمجھ جائیں گے تو ہم باقی ادارے، معیشت، ہمارا سب سے بڑا اثاثہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی استعمال کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے ملک کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں دشمن بھی کہتا تھا کہ وہ صادق اور امین ہیں۔عمران خان نے کہا کہ جب فوج حکومت کرتی ہے تو بدقسمتی سے ان کو ادارے کمزور کرکے حکومت میں آنا پڑتا ہے، عدلیہ اور دیگر اداروں پر کنٹرول کرکے ان کو اپنے نیچے لانا پڑتا ہے۔انہوںنے کہاکہ فوجیں جس طرح حکومت کرتی ہیں، اس کو جواز دینے کے لیے خود جمہوری بھی کہتے ہیں تو پھر مصنوعی جمہوریت بھی آتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ 1988 کے بعد ہمارے جو سیاسی قیادت آئی، انہوں نے بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا اور پیسہ بنایا۔انہوںنے کہاکہ اب ان کا مقصد یہ ہے کہ جو پیسہ بنا کر باہر لے کر گئے ہیں ان کو بچانا کیسے ہے، پہلے انہوں نے پیسہ بنا کر نقصان پہنچایا اور اب اس پیسے کو بچانے کے لیے نقصان پہنچا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں معیشت کی پروا ہوتی تو آج ان کو مبارک باد دینی چاہیے تھی، یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس طرح اسحق ڈار بناتا تھا کہ اس طرح اعداد وشمار بنائے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب ہماری شرح نمو صفر اعشاریہ 5 تھی تو اس وقت اعداد وشمار تبدیل کیوں نہیں کیے، اس وقت تو کسی نے نہیں کہا، میں یقین دلاو¿ں گا کہ لوگوں سے جھوٹ بول کر ہماری تعریف کروائیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری وہ حکومت آئی ہے جس نے بیرونی قرضے واپس کیے ہیں اور ہمیں اب قرضے لینے کی کم سے کم ضرورت پڑ رہی ہے، اس لیے یہ گھبرائے ہوئے ہیں اور پھر سے اکٹھے ہورہے ہیں کہ کسی طرح ان کو گرادیں لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔

 یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا ، وزیرخزانہ شوکت ترین کی یقین دہانی