عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت 2 مئی تک ملتوی

Apr 30, 2024 | 18:42:PM
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت 2 مئی تک ملتوی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احتشیام کیانی) سابق وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی  کی سائفر کیس میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت 2 مئی تک ملتوی ۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی ، ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی ذمہ داری کےبرخلاف جا کر سائفر دستاویز اپنے پاس رکھا، سابق وزیراعظم نے سائفر دستاویز واپس کرنے کی ڈائریکشن پر عملدرآمد نہیں کیا، میں کورٹ کو سائفر دستاویز کی موومنٹ سے متعلق بتاتا ہوں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ سائفر موومنٹ سے متعلق جو کچھ آپ بتا رہے ہیں وہ ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں، آپ لیپ ٹاپ سے پڑھ رہے ہیں لیکن ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں، آپ یہ چیزیں تحریری طور پر ہمیں دیدیں، ہم سے لکھنے میں کچھ رہ نہ جائے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تمام چیزیں میں پہلے عدالت میں بیان کر بھی چکا ہوں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اب آئیں نا ذرا ہمیں یہ بتائیں کہ سائفر دستاویز اعظم تک کیسے پہنچا؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی پراسیکیوٹر کو کہا کہ آپ جو بتا رہے ہیں وہ پہلے بتا لیں تاکہ ربط نہ ٹوٹ جائے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر  نے پھر سے دلائل کا آغاز کیا اور کہ اعظم خان نے اعتراف کیا کہ اُن کے سٹاف نے انہیں وزیراعظم کی کاپی دی، اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی اپنے پاس رکھ لی اور واپس نہیں کی،اعظم خان نے بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے جب سائفر کاپی پڑھی تو پُرجوش ہو گئے، اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی پڑھنے کیلئے اپنے پاس رکھ لی، کچھ دن بعد واپس مانگنے پر وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کاپی گم ہو گئی، وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سٹاف اور ملٹری سیکرٹری کو ڈھونڈنے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کای کہ سائفر کاپی اعظم خان تک آ گئی تو وزیراعظم کو بھی دی گئی ہو گی؟ بانی پی ٹی آئی نے کبھی سائفر کاپی موصول کرنے سے انکار نہیں کیا،اعظم خان تک سائفر کاپی پہنچنے کی ڈاک کی تفصیلات تو لازمی موجود ہونگی، کیا سائفر کاپی اعظم خان سے وزیراعظم کو جانے کی بھی کوئی شہادت موجود ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سارا کچھ موجود ہے، اِن اور آؤٹ کے رجسٹر موجود ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ سائفر دستاویز وزیراعظم آفس تک جانے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں؟اعظم خان سے وزیراعظم کو کس طرح پہنچا اس سے متعلق بتا دیں۔ 

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ دستاویز وزیراعظم تک پہنچنے کی کوئی شہادت ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ  نے کہا کہ نہیں، اُسکی نہیں ہوتی، چیف جسٹس عامر فاروق  نے پھر سے سوال کیا کہ اعظم خان نے سائفر دستاویز وزیراعظم کو دیا ہو گا، اگر دستاویز دیا گیا ہے تو ہی ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، وزیراعظم کے سیکرٹری نے تو ڈی مارش کا فیصلہ نہیں کیا ہو گا، ہمیں کیسے معلوم ہو کہ وزیراعظم نے سائفر واپس نہیں کیا ہو گا؟ ۔
جسٹس حسن اورنگزیب  نے کہا کہ سائفر دستاویز اعظم خان سے وزیراعظم جانے کی واحد گواہی صرف اعظم خان کا بیان ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکیل تو اعظم خان کے بیان پر ہی اعتراض کر رہے ہیں، اعظم خان کے نام نہاد اغواء پر جو مقدمہ درج ہوا تھا اس پر کیا ہوا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد یا انکے آفس سے کوئی عدالت میں موجود ہے؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں، چیک کر کے عدالت کو بتاؤں گا، جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ صرف چیک نہ کریں آئندہ سماعت پر تمام مصدقہ کاپیز کے ساتھ رپورٹ پیش کریں، جو رپورٹ پیش کرینگے اس پر ایڈووکیٹ جنرل کے اپنے دستخط ہونگے، عدالت کو بتائیں کہ مقدمہ میں چالان ہوا یا ڈسچارج کر دیا گیا، اگر مقدمہ زیرالتواء ہے تو اسکی بھی تفصیل عدالت میں پیش کریں۔ 

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بانی پی ٹی آئی کی 27 مارچ کے جلسے میں تقریر پڑھ کر سنائی ایف آئی اے پراسیکیوٹر  نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے مانا کہ میرے پاس جو دستاویز ہے وہ سائفر ہے، چیف جسٹس  نے سوال کیا کہ میں ایک کاغذ اٹھاؤں اور کہوں کہ یہ ایک ایف آئی آر ہے تو آپ مان لیں گے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر  نے جواب دیا کہ میرے پاس مائی لارڈ کی بات کو جھٹلانے کا بھی کوئی حق نہیں، جسٹس حسن اورنگزیب  گویاں ہوئے اور بولے کہ ہم کرمنل لاء کے تحت سماعت کر رہے ہیں اور بہت سختی سے دیکھنا ہے، یہ ایک سیاست دان ایک ریلی میں بات کر رہا ہے، اس پر کیسے یقین کر لیں؟ سیاست دان کا ریلی میں بیان سپورٹ حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے، سیاست دان ریلی میں جیب سے نکال کر ایک چیز دکھا رہا ہے تو ہم اسے سائفر کیسے مان لیں؟ 
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے مزید سوال کیا کہ کیا سائفر کے ذریعے آنے والی تمام معلومات خفیہ ہوتی ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر  نے جواب دیا کہ سائفر کے ذریعے آنے والی تمام معلومات خفیہ ہوتی ہے، چیف جسٹس  نے پوچھا کہ اگر کوئی بیرون ملک سے موسم کا حال بھیجے تو وہ بھی خفیہ دستاویز ہو گا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر  نے جواب دیا کہ سمجھنے کی بات ہے کوئی موسم کا حال کیوں بھیجے گا،  جسٹس حسن اورنگزیب  نے کہا کہ جنگی حالات میں کوئی پاکستان سے متعلق نقشہ کسی کو دے وہ تو الگ معاملہ ہے،اگر کوئی تھریٹ کرے تو کیا یہ جاننا پبلک کا حق نہیں ہے؟ وزیراعظم تو عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ اسکی ذمہ داری ہے،عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل سننےکے بعد سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی ۔

یہ بھی پڑھیں : ایل پی جی کی قیمت میں نمایاں کمی