قائد اعظم یونیورسٹی میں مسائل کی بھرمار۔۔۔وائس چانسلرمدت ملازمت پوری ہونے سے قبل ہی عہدہ چھوڑنے کے خواہاں

Nov 28, 2021 | 22:35:PM
قائد اعظم یونیورسٹی
کیپشن: وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

  (ویب ڈیسک   ) قائداعظم یونیورسٹی کی بگڑتی ہوئی انتظامی و تعلیمی صورتحال پر بڑھتی ہوئی تنقید کے باعث وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے سے ایک سال قبل ہی پنجاب کی تین علاقائی سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کا عہدہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر تعلیم شفقت محمود کا سکولوں کی بندش کے حوالے سے اہم بیان

قائداعظم یونیورسٹی انتظامی لحاظ سے مشکل ترین یونیورسٹی ہے جس میں مضبوط فیکلٹی اور کوٹہ کی بنیاد پر ملک کے تمام حصوں سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ گزشتہ سال 2020 میں بھی موجودہ وائس چانسلر پنجاب ہائر ایجوکیشن سیکٹر میں نوکری کے خواہاں تھے تاہم وفاقی وزارتِ اعلیٰ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے این او سی جاری کرنے سے انکار کرکے مقررہ مدت ملازمت پوری کرنے کاحکم دیا تھا۔

اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (اے ایس اے) کے انتخابات میں حصہ لینے والے فیکلٹی کے ایک پینل کی طرف سے الیکشن مہم اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 3 سالوں میں یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں اہم اصلاحات پر غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی اصلاحات کو نافذ کیا گیا۔  توقع ہے کہ (اے ایس اے) یونیورسٹی کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے فعال طور پر کام کرے گی جس کی وجہ سے موجودہ وائس چانسلر کو ان کے آخری سال میں پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور شاید اِسی عجلت میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے بھی ہائر ایجوکیشن کے تناظر میں قائد اعظم یونیورسٹی سمیت31 دیگر سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار کی سنگین گراوٹ پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ جریدے کے مضامین میں سرقہ کی متعدد مثالوں کے بارے میں ایک بین الاقوامی ایجنسی، ریٹریکشن واچ کی حالیہ رپورٹ خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی کے قریبی ساتھی، ریاضی کے ایک سینئر پروفیسر اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر، Retraction Watch Database کے مطابق، کم از کم 19 جعلی/مسترد شدہ آرٹیکلز میں ملوث ہیں۔ سینیٹ کی ایک ذیلی کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ معیارات میں کمی کی تحقیقات کرے اور دو ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

نسلی بنیادوں پر قائم طلبہء کونسلز کی پرتشدد سرگرمیوں کے خلاف اپنی بے عملی کی وجہ سےقائد اعظم یونیورسٹی فیکلٹی خاص طور پر یونیورسٹی انتظامیہ سے ناراض ہے۔ گزشتہ ماہ میں پشتون کونسل و سرائیکی کونسل کے ممبران، اور ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد نے مبینہ طور پر آئی ٹی سہولیات اور فیکلٹی دفاتر میں توڑ پھوڑ کی جس سے یونیورسٹی کے خزانے کو 60 ملین روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔ انہوں نے ہڑتال کی، کیمپس کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ فیکلٹی ہاؤسنگ تک رسائی بھی بند کردی۔ جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی  انتظامیہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (ICT) انتظامیہ سے ہنگامی مدد طلب کرنے سمیت کارروائی کرنے میں بھی ناکام رہی، تو فیکلٹی کو مجبور کیا گیا کہ وہ مشتعل طلباء کی طرف سے لگائی گئی رکاوٹوں کو ہٹا دیں، اس طرح موجودہ سمسٹر کے دوران تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والے ایک گروپ کے الیکشن اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی ڈسپلنری کمیٹی نے ان میں سے کچھ طلباء کو نکالنے کا فیصلہ کیا، لیکن بعد میں وائس چانسلر آفس نے سنڈیکیٹ کی لازمی منظوری کے بغیر "اپیل کمیٹی" بنا کر ان طلباء کو مطمئن کرنے کا انتخاب کیا۔ انتخابی مہم اعلامیہ کے مطابق "پچھلے 3 سالوں کے دوران، سیکورٹی اور نظم و ضبط کی صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ فیکلٹی اور عملہ اپنے دفاتر، لیبز، اور یہاں تک کہ کیمپس کے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہے۔

موجودہ وائس چانسلر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کے سامنے یونیورسٹی کی 700 ایکڑ اراضی پر قبضے اور کیمپس میں کھلے عام منشیات کی فروخت کے بارے کیے گئے اعترافات کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے زیر تفتیش ہیں۔ 

یونیورسٹی انتظامیہ نے غیر قانونی تجاوزات کے کیس میں سپریم کورٹ کے 2017 کے ازخود نوٹس کی پیروی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ گزشتہ تین سالوں میں اس پر کارروائی نہ ہونے کے نتیجے میں یونیورسٹی کی مزید اراضی غیر قانونی قابضین کے قبضے میں چلی گئی۔ جیسا کہ وائس چانسلر نے اگست میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ 1,700 ایکڑ سے زائد میں سے 700 ایکڑ اراضی قبضہ مافیا کے کنٹرول میں ہے۔

رواں سال کے شروع میں وائس چانسلر کے پریس بیان کے مطابق، یونیورسٹی نے اسی عرصے کے دوران اپنی مالی حالت بھی بگڑتی دیکھی ہے جبکہ اس وقت بجٹ خسارہ 800 ملین روپے ہے۔

اے ایس اے انتخابی مہم میں انتظامی و تعلیمی بد انتظامی و بد حالی کے دیگر پہلوؤں پر بھی بحث ہوئی جیسے کہ 70 سے زائد ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبران جو پہلے بی پی ایس پر تھے اوت جن کو پنشن کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی،  جنوری 2019 میں سینڈیکیٹ کے ایک متنازعہ فیصلے کے باعث وہ تحفظ کھو چکے ہیں جبکہ دیگر سینیئر فیکلٹی ممبران میں بجٹ کی کمی کے باعث پروموشن نہ ہونے پر تشویش پائی جاتی ہے۔

دستاویزات کے مطابق مزید یہ کہ یونیورسٹی گزشتہ 3سال سے مستقل رجسٹرار، کنٹرولر، اور خزانچی کے بغیر چند فیکلٹی ممبران کو ایڈہاک پر عہدے بانٹ کر کام چلا رہی ہے جس کےباعث ٹیچنگ و انتظامی عملے کی تقرری، ترقی و تبادلوں میں بےضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ حاصل کردہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ وائس چانسلر اپنے دستِ راست جو ڈائریکٹر اکیڈمکس کے عہدے پر تعینات ہے اور جس کے پاس مطلوبہ اہلیت، و تجربہ بھی نہیں ہے کو پروفیسر بنوانے کے لئے ایچ ای سی میں تگ و دو کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا فنڈ میں 40 ارب کی خورد برد۔ حکومت بے نقاب ۔ادارے فوری تحقیقات کریں۔ ڈی این اے