فواد چوہدری کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) الیکشن کمیشن کیخلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں رہنما پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق کیس میں اسلام آباد پولیس نے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ چیلنج کیا۔ فواد چوہدری کی جانب سے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے سرکاری وکیل سے دلائل طلب کئے۔
سرکاری وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ڈسچارج کی درخواست تب آ سکتی ہے جب ریکارڈ پر شواہد موجود نہ ہوں، فواد چوہدری کے خلاف کافی مواد ریکارڈ پر موجود ہے، فواد چوہدری کی ڈسچارج کی درخواست مسترد کی جائے۔
جج طاہر محمود نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں۔ اس دوران وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری وکیل نے دلائل دے دیے، جواب الجواب میں کچھ دلائل میں دونگا۔
جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کوئی غیرمتعلقہ شخص میرے دلائل میں خلل نہ ڈالے، ایسا کریں گے تو میں بیٹھ جاؤں گا اور میرے ساتھ کھڑے دیگر لوگ خلل ڈالیں گے، آج کل تو یہ سرزمین بے آئین بنا دی گئی ہے، قانون میں ملزم سزا ہو جانے تک معصوم سمجھا جاتا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری کو اپنے وکلاء سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، میں نے اپنی چالیس سال کی وکالت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا، فواد چوہدری کو منہ پر کپڑا ڈال کر لایا جاتا ہے، دھکے دیے جاتے ہیں، جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ میں فواد چوہدری سے مل ہی نہیں سکا، معاونت کیا کرونگا، کلبھوشن کی اماں کو جو حق دیا گیا تھا وہ فواد کی اولاد کو نہیں دیا گیا، مجھے بتایا گیا کہ فواد چوہدری کو ساڑھے بارہ بجے طلب کیا گیا، ایک بج گیا ہے ابھی تک فواد چوہدری کو پیش نہیں کیا جا سکا،
وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہاں اس عدالت سے بڑی مینجمنٹ موجود ہے، آپ تو صرف اس کمرے کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔ جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کو لایا جا رہا ہے، وہ راستے میں ہیں۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایک بار اور میرے دلائل میں خلل ڈالا گیا تو میں بیٹھ جاؤں گا۔
بابر اعوان نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے گھوڑوں کو لگام دیں، آپکی حاضری لگ گئی ہے، آپ کو بڑا افسر بنا دیا جائے گا جیسا آپ کا ایس ایچ او ہے، پولیس اس لئے ریمانڈ مانگ رہی ہے کہ جو ویڈیو ہے اس سے فواد کی تصویر میچ کرانی ہے، یہ کوئی وہ ویڈیو تو نہیں ہے جو لیکس ہوتی ہے، وہ ویڈیو نہیں جس میں میچ کرانا ہوتا ہے کہ ٹانگ مرد کی ہے یا عورت کی، اس ویڈیو میں جو وہ بول چکا وہ سامنے ہے یہ اب کیا کرنا چاہتے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ کے بار بار طلب کرنے کے باوجود پیش نہیں کیا گیا، ایک وزیر نے ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ فواد چوہدری کو چھ بجے ایک جج کے پاس پیش کرینگے، میں اسے انصاف کہوں یا مینجمنٹ کہوں، یہ کیا ہے، اگر یہ دہشتگردی کی دفعہ لگاتے تو میں ایس ایچ او کو ہتھکڑی لگانے کی استدعا کرتا۔
بابر اعوان نے کہا کہ پولیس نے ایف آئی آر میں سات پولیس رولز کی خلاف ورزی کی ہے، یہ مذاق کر رہے ہیں، پوری بائیس کروڑ عوام کو اُلو سمجھ رکھا ہے، آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری اور سیکریٹری داخلہ کو مقدمہ کی کاپی بھیجی گئی، آئی جی پنجاب اسلام آباد پولیس کا ماما لگتا ہے، اسے کیوں کاپی بھیجی گئی؟ یہ ایف آئی آر سیکرٹری داخلہ سے آئی کہ فواد کو ہم نے اٹھا لیا ہے اب اسکو کور کرو۔
سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے فواد چوہدری کی گفتگو کا حرف بہ حرف ٹرانسکرپٹ تیار کیا ہے۔ بابر اعوان نے فواد چوہدری کی پوری گفتگو عدالت میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ جو سیاست میں آئیں، لوگ ان کو گھروں تک چھوڑ کر آتے ہیں، ایک وزیر نے کہا تھا کہ یہ جو ججز ہیں ہم انکے گھروں کا گھیراؤ کرینگے۔
وکیل بابر اعوان نے عدات کو بتایا کہ فواد چوہدری کی تمام گفتگو میں جرم ہی کیا بنتا ہے؟ آئین کوئی چیتھڑا نہیں جسے پھاڑ کر پھینک دینگے، اس کیلئے بائیس کروڑ عوام کو چیرنا ہوگا جو جاگے ہوئے ہیں، میرے اربوں روپے الیکشن کمیشن پر لگتے ہیں، میں ان پر تنقید کیوں نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن اسلام آباد کے الیکشنز سے بھاگا ہوا ہے، الیکشن نہیں کروا رہا، الیکشن کمیشن کی توہین ہوئی ہے تو آئیں اور ثابت کریں ساتھ جرمانے کے پیسے بھی ملیں گے، پیسے ملیں گے جس طرح ایک نوکری کی پینشن اور دوسری نوکری کی تنخواہ مل رہی ہے، جس کی توہین ہوئی وہ عدالت آئے نا تاکہ ہم اس کی حقیقت آشکار کریں۔
دوران سماعت فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ فیصل چوہدری نے عدالت سے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی ہدایت کر دی۔
اس دوران بابر اعوان نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چابی ادھر ہی ہے یا اُن سے مانگ کر لائیں گے جنہوں نے ہتھکڑی لگائی ہے ؟ فواد چوہدری کی تقریر سے ملک ٹوٹ جائے گا ؟ اُس نے ایسا کیا کہہ دیا، جنہوں نے کہا انڈین ٹینکوں پر بیٹھ کر آؤں گا انکو نَو نَو عہدے ملے، پارلیمنٹ کے اندر فاضل رکن کو ٹریکٹر اور ٹرالی کہا گیا، کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایک شخص نے اقوم عالم میں رسول اللہ کی شان بیان کی اس کو یہودی کہتے ہیں، ایسا کہنے پر کوئی مقدمہ نہیں ہوا، ایمان کا تعین اللہ کرے گا، فواد چوہدری نے جو کچھ بولا وہ اسکی پوری جماعت بول رہی ہے، فواد چوہدری ملک کی سب سے بڑی جماعت کا ترجمان اور نائب صدر ہے، فواد چوہدری جو بول رہا ہے وہ میری بھی آواز ہے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت جب بھی ظلم دیکھے تو اسے مظلوم کو انصاف دینے کا اختیار قانون دیتا ہے، میں صبح سوا آٹھ بجے عدالت میں تھا، تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر نہیں تھے، یہ لوگ کچہری میں ہی گھوم رہے تھے، عدالت پیش نہیں ہوئے، میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے سے متفق ہوں سوائے اسکے کے انہوں نے فواد چوہدری کو ڈسچارج نہیں کیا، فواد چوہدری کے گھر سے کچھ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ فواد چوہدری کا موبائل تو پہلے ہی ان سے لیا جا چکا ہے، یہ لوگ تو پہلا کام ہی یہ کرتے ہیں کہ جیب پر ہاتھ ڈالتے ہیں، یہ تو اچھی بات ہے کہ فواد اپنے پاس بٹوہ ہی نہیں رکھتا، فواد چوہدری کو جہاں اور جس ٹیسٹ کیلئے بلاتے ہیں وہ جانے کیلئے تیار ہے، فواد چوہدری تو ادھر ہی ہے وہ کونسا پلیٹ لٹس کا بہانہ بنا کر بھاگ گیا۔
بابر اعوان کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ یہ کہا گیا کہ فواد چوہدری کے فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کی ضرورت ہی نہیں، بابر اعوان اس کیس میں گواہ نہیں جو بتائیں گے کہ فواد چوہدری نے بیان دیا، فواد چوہدری مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیدیں تو پھر فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔
دوران سماعت بابر اعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ آپ عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں نے آپکے دلائل سنے، آپ بھی میرے دلائل میں خلل نہ ڈالیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ فواد چوہدری وکیل ہے تو اسے کوئی ریلیف دے دیا جائے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کا کہنا تھا کہ میں نے جو باتیں کیں انکو مانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ میرا حق ہے، طاقت ور لوگ ہمیشہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ ان پر تنقید درحقیقت غداری ہے، تاریخ اس بات کا تعین کرے گی کہ کون درست تھا اور کون غلط۔
فواد چوہدری نے کہا کہ طاقت ور لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ عزت اپنے کنڈکٹ سے کرائی جاتی ہے، ڈنڈے سے نہیں، میں منہ پر اچھا اچھا کہوں اور باہر جا کر گالیاں دوں، یہ کونسی عزت ہے، اگر آپ تنقید نہیں لے سکتے تو آپ اس طرح کے عہدے نہ لیں۔
سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ میں اضافے سے متعلق درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چودھری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی تھی۔