ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس، گواہ کی بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب

وعدہ معاف گواہ کا ضمیر تین سال بعد ہی کیوں جاگا؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

Feb 28, 2024 | 15:12:PM
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس، گواہ کی بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری)سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس ، سپریم کورٹ نے گواہ مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات طلب کر لیں ۔

تفصیلات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس  پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحیی  آفریدی ،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہیں، کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے ۔ 

عدالتی معاون سابق جج سپریم کورٹ منظور احمد ملک کے دلائل مکمل کر لیے ان کا کہنا تھا کہ مسعود محمود کا بیان وعدہ معاف گواہ کے بیان کی نفی کرتا ہے،چیف جسٹس نے استفسار  کیا کہ کیا میاں محمد عباس گواہی کے کٹہرے میں آئے؟عدالتی معاون منظور احمد ملک نے جواب دیا کہ میاں محمد عباس کبھی گواہی کے کٹہرے میں نہیں آئے، کل میں گواہ مسعود محمود پر جرح کی بات کر رہا تھا،اس دوران جسٹس یحیی آفریدی نے اہم سوال اٹھایا،ایک گواہ نے کہا ڈی جی ایف ایس ایف سے احمد رضا قصوری کو کلیئر کرنے کی ہدایت ملی،یہ بیان کیس کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کو رد کر رہا تھا،

وعدہ معاف گواہ نے کہہ رکھا تھا قتل کی ہدایات وزیراعظم سے ملیں،دوسرے گواہ کا بیان چونکہ وعدہ معاف گواہ کیخلاف تھا اس لیے اسے نظر انداز کر دیا گیا،سوال تھا کیا گواہ میاں عباس کا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ہوا،اس سوال کا جواب ہاں میں ہے مگر 342کے بیان میں انہوں نے کہا وہ رضاکارانہ بیان نہیں تھا،164 کے تحت محض بیان ریکارڈ کرانے سے کوئی گواہ نہیں بن جاتا،جب تک اسے معافی نہ دی جائے گواہ کا 164 کا بیان صرف اعتراف جرم ہوگا۔ 
عدالتی معاون منظور احمد ملک  نے مزید کہا کہ ذوالفقار بھٹو اور انکے مخالف کی شخصیت کا بتانا چاہتا ہوں،چیف جسٹس  نے کہا کہ کسی کی شخصیت اور ذاتی زندگی کا موازنہ نہ کریں،عدالتی معاون نے کہا کہ کسی کی ذات کی بات نہیں کر رہا مگر حقائق بتانا ضروری ہیں،ذوالفقار علی بھٹو جیسا شخص اپنے مخالف کو قتل نہیں کرا سکتا،ذوالفقار علی بھٹو کا رویہ اپنے مخالفین کیساتھ اتنا کبھی سخت نہیں رہا،
ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف سازش کا لفظ غلط استعمال کیا گیا،ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف وعدہ معاف گواہ کا بیان سازش کی نفی ہے۔

عدالتی معاون اور جسٹس مسرت ہلالی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، عدالتی معاون  منظور احمد ملک نے کہا کہ کوئی عاقل مرد ذوالفقار علی بھٹو پر لگے سازش کے الزام کو سچ نہیں مان سکتا،جسٹس مسرت ہلالی  نے کہا کہ آپ عاقل مرد کہہ رہے خواتین بھی ساتھ بولیں،جو قانون میں لکھا ہے وہی بات کر رہا ہوں قانون میں مرد لکھا ہے،جسٹس مسرت ہلالی  نے کہا کہ پھر تو قانون کی ڈکشنری کو تبدیل کرنا چاہیے،سابق جج منظور ملک  نے کہا خواتین سے بڑا عاقل ویسے کون ہے جو شوہر،گھر،معاشرے اور سسرال سب کو قابو رکھتی ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود  نے مداخلت کی اور کہا کہ ملک صاحب ایسی باتیں نہ کریں ٹی وی پر چل رہا ہے سب دیکھ رہے ہیں۔ 
عدالتی معاون سابق جسٹس منظور ملک نے مزید کہا کہ ایک گواہ نے کہا اس نے بھٹو صاحب سے کہا ہم سب کو خدا نے انجام تک پہنچانا ہے،گواہ نے کہا میں نے بھٹو صاحب سے کہا میں مزید ایسے احکامات کی بجاآوری نہیں کروں گا،کیا ایک آفیسر وزیراعظم کے سامنے ایسی بات کر سکتا ہے؟کیا اس سپریم کورٹ کا رجسٹرار چیف جسٹس کے سامنے ایسی باتیں کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے کہا میں آپ سے متفق نہیں ہوں، میں تو کئی چیزوں پر رجسٹرار کے اختلاف پر حوصلہ افزائی کرتا ہوں،عدالتی معاون منظور ملک نے کہا کہ میں نے آپ کی تو بات ہی نہیں کی آپ خود پر نہ لیں،

منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف گواہان کے بیانات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں،گواہ نے دعوی کیا کہ اس کا اللہ تعالی پر ایمان غیرمتزلزل ہے،اتنا بڑا دعوی وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہو،ذوالفقار علی بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا،عدالت نے دیکھنا ہے کہ تاریخ درست کرنی ہے یا نہیں،عدالت ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرے کہ تکنیکی معاملے پر جانا ہے یا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا ہے،بھٹو کی پھانسی کے سیاسی اثرات بھی ہیں ان پر بات نہیں کروں گا، اندرون سندھ کے لوگ آج بھی بھٹو کی پھانسی کو نہیں بھول سکتے ۔

احمد رضا قصوری   نے  عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے پر کہا کہ منظور ملک نے تو بھٹو کے وکیل کا کردار ادا کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے ان سے کہا کہ ہم نے منظور ملک صاحب کو معاون مقرر کیا وہ خود سے بولنے نہیں آئے،آپ کو کوئی بات کرنی ہے تو اپنی باری پر کر لیجیے گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا تعلق بھی قصور سے ہے، 

کیا قتل کا حکم دینے والے کو مسعود محمود اور مدعی مقدمہ کے تعلق کا علم نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ نے اس پہلو کا جائزہ لیا تھا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنی یا مخالفت اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے، کیا اس پہلو کی تحقیقات کی گئیں کہ قتل کا حکم کسی اور نے دیا اور نام وزیراعظم کا لگا دیا گیا؟ گواہ کا ضمیر تین سال بعد ہی کیوں جاگا؟چیف جسٹس کا عدالتی معاون منظور ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بنچ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی دس بارہ سال یہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں :پی سی او  ججز کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست،سپریم کورٹ سے اہم خبر آ گئی