بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا،نیا بینچ تشکیل ، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی :چیف جسٹس

سپریم کورٹ  میں  فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں  پر   جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور  جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے

Jun 26, 2023 | 11:23:AM
 بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا،نیا بینچ تشکیل ، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی :چیف جسٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری) سپریم کورٹ  میں  فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں  پر  تیسری  سماعت کے موقع  پر  بینچ  ایک بار  پھر ٹوٹ گیا۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟ 2 وقفوں کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل منگل ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی ۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے آج درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور  جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔

سماعت کا آغاز  ہوا تو  اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور  وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نےکہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں ہے، تاہم اب مجھے ہدایت ہےکہ جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ  آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائےگا، کس بنیاد پر وفاقی حکومت جسٹس منصور پر اعتراض اٹھا رہی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس جج  پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پرکسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پرکسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ایک درویش صفت انسان ہیں، کیا جسٹس منصور، جسٹس جواد ایس خواجہ کو فائدہ دیں گے؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے؟ الیکشن کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر عدالت نے سخت ایکشن سے گریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟

 بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا
جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، ان کا کہنا تھا کہ  میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا،سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔اعتزاز  احسن کے  وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ  آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا کیس ہے، بینچ پر اعتراض نہیں بنتا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد  آگےکا لائحہ عمل طے کریں گے۔سپریم کورٹ کے ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلےگئے۔

وقفےکے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر  بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ  ہماری ایک درخواست پر نمبر نہیں لگا، ہم نے فوجی عدالتوں کو  چیلنج کیا تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ حامد خان صاحب،آپ کو بعد میں سنیں گے، جو صبح سیٹ بیک ہوا اس سے ری کور  ہو رہے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا؟

وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور  امریکا میں بھی مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔جسٹس منیب نے سوال کیا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جاسکتی تھی؟ سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کرسکتی۔

جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ  دہشت گردی کے ملزمان کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت ہی فورم ہے۔ وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ کسی عدالت میں ٹرائل ہو، شہری کو بنیادی  حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کی دلیل فورم سے متعلق ہے یا بنیادی حقوق کے معاملے پر؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مفروضےکی بات کر رہے ہیں کہ جب ٹرائل ہوگا  تو یہ ہونا چاہیے  وہ ہونا چاہیے، ابھی تو ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا،کارروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل میں  شہری کے حقوق کی بات کر رہے ہیں؟

وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرے موکل کے بیٹےکا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل آرٹیکل175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بڑے تنازع میں نہ پڑیں، دلائل کو سادہ رکھیں تاکہ ہم کیس ختم کرسکیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2  ڈی سویلین کو بنیادی حقوق سے  محروم نہیں کرسکتا، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز  نہیں کرسکتا۔

پہلے دیکھا جائے کہ  سویلین  پر آرمی ایکٹ سیکشن 2  ڈی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟:جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے دیکھا جائے کہ  سویلین  پر آرمی ایکٹ سیکشن 2  ڈی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے تو پھرکیس کیا ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں سویلین میں ریٹائرڈ  آرمی افسران بھی آتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ  آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں  اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کورٹ  مارشل کا لفظ  آرمی ایکٹ کے  علاوہ  کہیں استعمال ہوا؟ ملٹری کورٹس کے  بارے میں بہت سے فیصلے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں؟

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرا فوکس صرف سویلین پر ہے۔ جسٹس منیب نےکہا کہ آرٹیکل199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا، آرٹیکل199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاؤں پر لاگو  ہوتا ہے  پرکورٹ مارشل پر نہیں، جو افراد  آرمی ایکٹ کے  تحت ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟  آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الزام کی بنیاد پر فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دئیے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ بولے امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں،مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے،چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ  آپ مزید کتنا وقت لیں گے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ مزید دس منٹ لوں گا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وقفہ کر لیتے ہیں پھر مزید وکلا کو بھی سنوں گا،کیس کی سماعت میں سوا دو بجے تک وقفہ کردیا گیا ۔

میرے موکل جنید رزاق کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا:سلمان اکرم راجہ

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرڈ آرمی افسران کے علاوہ بھی سویلینز کو شامل کیا گیا ہے،سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے اس لیے قانون کو چیلنج کیا ہے،عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں ہونے پر کیسے دیکھتے ہیں-میرے موکل جنید رزاق کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا،میری معلومات کے مطابق آرمی کے زیر حراست 102 سے زائد افراد ہیں،اٹارنی جنرل نے صرف 102 تعداد بتائی لوگوں کے نام کیوں نہیں بتائے گئے،میرے موکل کو بیٹے سے ملنے کی اجازت تک نہیں،خاندان کے افراد کو زیر حراست لوگوں سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے،آرمی کی زیر حراست لوگوں کو شفاف ٹرائل کا موقع ملنا چاہیے۔

عدالت ملٹری ٹرائل روکنے کا حکم دے،جو افراد ملٹری کسٹڈی میں ہیں ان کی صرف تعداد نہیں تفصیلات بھی بتائیں،سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل  ہوگئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کر دیا،وکیل چیئرمین پی ٹی آئی  نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے موکل کا موقف ہے 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی شخص کو رہا نہ کیا جائے،9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جائے،میرے موکل کا نام کسی وجہ سے ٹی وی پر چلانے کی اجازت نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین نے بھی درخواستیں دائر کیں،پی ٹی آئی کا موقف سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی مقاصد اور خواہشات ہمارے سامنے بیان نہ کریں،وکیل چئیرمین پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری  نے بتایا کہ  میں سلمان اکرم راجہ کے دلائل اپناتا ہوں، چیف جسٹس بولے کہ ہم آپ کا تحریری جواب پڑھ لیں گے اور آپ اپنے دلائل کل مکمل کر لیجیے گا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ اٹارنی جنرل صاحب سلمان اکرم راجہ کو آپ نے سنا،ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متعلق کیا اپڈیٹ ہے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہمیں کچھ یقین دہانیاں چاہیں،ملٹری ٹرائلز کا کیا بنا کیا کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان  نے بتایا کہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ممکن ہے تحقیقات کے دوران 102 افراد سے کئی افراد کو چھوڑ دیا جائے،  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب پک اینڈ چوز کے پیچھے کیا وجوہات کار فرما ہیں؟ اٹارنی جنرل  نے بتایا کہ جن افراد نے ممنوعہ مقامات پر حملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا،  جسٹس عائشہ ملک بولیں کہ آپ یہ بیان اپنے موکل کے ہدایات پر دے رہے ہیں یا یہ آپکا ذاتی بیان ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں کوئی بھی بات عدالت میں ہدایات کے بغیر نہیں کرتا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ بغیر اعداد و شمار کے بات کر رہے ہیں،چیف جسٹس بولے کہ امید ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا،جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔

 کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی ، سپریم کورٹ نے سلمان اکرم راجہ کی حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کر دی ،سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کی مکمل تفصیلات کل فراہم کریں،وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں،ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو،اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیئے ،9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے، چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہآپ صرف قانون کی بات کریں، جو لوگ زیر حراست ہیں ان کو اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے، گرفتار افراد کو تمام ضروری سہولیات فراہم کریں۔

 اعتزاز  احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل 

خیال رہے کہ  اعتزاز  احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین اور سول سوسائٹی کے  وکیل فیصل صدیقی نے بھی دلائل مکمل کرلیے ہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان، وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے  وکیل بھی مقدمے میں دلائل دیں گے۔عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔