جسٹس عمر عطابندیال اورجسٹس منیب اختر اپنے اثاثے پبلک کریں: سرینا عیسیٰ

Apr 26, 2021 | 15:44:PM
جسٹس عمر عطابندیال اورجسٹس منیب اختر اپنے اثاثے پبلک کریں: سرینا عیسیٰ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسی  نے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر سے ان کی اور ان  کے اہلخانہ کی جائیدادیں پبلک کرنے کا مطالبہ کردیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس  عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ  نے  جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔سرینا عیسیٰ نے عدالت میں دلائل دئیے کہ  جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک مشورہ ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں تو اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کریں ۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ میڈم پلیز آپ خاموش ہو جائیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا مجبوری ہے کہ آج کارروائی مکمل کرنی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دئیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سے متعلق حقائق 2019 میں سامنے آئے تھے۔ حقائق سامنے آنے سے پہلے ایف بی آر کیسے کارروائی کر سکتا تھا۔حقائق سامنے آنے پر سوال اٹھا کہ جائیدادوں پر فنڈنگ کیسے ہوئی۔ وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمان نے دلائل دئیے کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی وجہ سے ایف بی آر نے کچھ نہیں کیا۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ کیسے اخذ کیا گیا کہ ایف بی آر سپریم کورٹ کی وجہ سے کارروائی نہیں کر رہا تھا۔جس پر عامر رحمان نے کہا یہ بھی تو فرض کیا جا رہا ہے کہ ایف بی آر کارروائی نہیں کرے گا۔جسٹس منظور ملک نے ریماکس دئیے کہ قاضی صاحب آپ کے بولنے سے عامر رحمان ڈر جاتے ہیں۔کیا حکومتی وکیل آپ سے لکھوایا کریں کہ کیا دلائل دینے ہیں کیا نہیں؟ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عدالت کو ایک لطیفہ سنانا چاہتا ہوں۔ جس پر جسٹس منظور ملک نے کہا فی الحال بیٹھ جائیں لطیفہ بعد میں سنیں گے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا معزز جج اور عدالتی ساکھ کا سوال ہے۔ادارے کی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔جسٹس فائز عیسی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جا سکی۔فیصلے میں قانونی غلطی ہو تو بھی نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ کا کوئی حکم ایف بی آر پر اثر انداز نہیں ہوا۔فروغ نسیم نے آج دلائل کے لئے آنا تھا۔کمر میں تکلیف کے باعث فروغ نسیم نے کل دلائل دینے کی استدعا کی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا فروغ نسیم کو کہیں تحریری دلائل جمع کرا دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی بولے مجھے پنجابی میں روکا نہیں گیا اس بات کا گلہ ہے ۔پنجابی میں کہوں گا تو ونج تے میں آیا۔، جسٹس منظور احمد ملک  نے کہا  آپ نے غلط پنجابی بولی یہ ویسے سرائیکی زبان ہے۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میرے استاد نے مجھے غلط پنجابی سکھائی ہے ۔میری دعا ہے کہ جو مجھ پر بیتی وہ آپ سب میں سے کسی پر نا بیتے۔آج یہاں کھڑا ہوں تو عدلیہ کی آزادی کیلئے کھڑا ہوں۔انہوں نے کل سے پھر میرا میڈیا ٹرائل شروع کر دیاْ۔ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ عزت دیں میں آج بھی ایک جج ہوں۔ہمارے بچے بیویاں تو یہاں موجود ہیں۔کسی ریٹائرڈ جرنیل کو چھیڑیں تو شمالی علاقہ جات کی سیر ہو جاتی ہے۔

قبل ازیں دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہماراسوال یہ ہے کہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا بھی جاسکتا تھا یا نہیں،ہم کیس میں ایف بی آر رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں دیکھ رہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں ان سوالات کو کلئیر کر دیتا ہوں، جسٹس عمرعطا بندیال کیس میں نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں، بار بار یاد دہانی کراچکا وقت کم ہے، بینچ کے ایک ممبر کو 4 دن میں ریٹائر ہو جانا ہے،بلاوجہ عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔حکومتی وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ میں ان سوالات کے جوابات دے رہا ہوں جوعدالت نے مجھ سے کیے، جبکہ درخواست گزار بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔جسٹس مقبول باقرنے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عدالت ایف بی آر رپورٹ نہیں دیکھے گی۔

حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل جاری  رکھتے ہوئے کہا جسٹس منصور علی شاہ نے حق دعوی نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے۔عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی نہیں کی۔ عامر رحمان نے مزید کہا کہ عدالت نے ریفرنس قانونی نقاط میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا۔عدالت نے کہا تھا سرینا عیسی کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا۔عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظرثانی اپیل دائر کرتی۔حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔عملدرآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی بھی مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔آرٹیکل 211 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بھی چیلنج نہیں ہو سکتی۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ پہلے آپکا موقف تھا کہ جوڈیشل کونسل کو ہدایات دی جا سکتی ہیں۔کیا آپکا موقف نظر ثانی درخواستوں کے حق میں نہیں جاتا؟ جس پر وکیل وفاقی حکومت نے کہا پہلے دن سے موقف ہے جوڈیشل کونسل کو عدالت نے کوئی ہدایت نہیں دی۔سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔افتخار  چودھری کو بطور چیف جسٹس معطل کیا گیا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے حقائق افتخار چودھری کیس سے مختلف ہیں۔بعدازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سن لینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرلی۔