کب تک انتخابات ملتوی کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ چیف جسٹس

May 25, 2023 | 14:16:PM
کب تک انتخابات ملتوی کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے، شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال  نے کہا کہ 90 روز کا مداوا ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے منتخب حکومت آجائے، کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟، کب تک انتخابات ملتوی کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک کو منتخب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جمہوریت کو بریک نہیں لگائی جاسکتی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اسمبلی انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں :ہماری ہرچیز درست رپورٹ نہیں ہوتی،عمران خان کیلئے پولیس نے مرسڈیز منگوائی ،چیف جسٹس
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کے تیسرے دن بھی دلائل جاری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، اپنے دلائل مختصر کریں، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا، ہمیں بتایئے کہ آپ کا اصل نکتہ کیا ہے؟۔

سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کم نہیں کرسکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟، اب تک کے نکتے نوٹ کرچکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہوجائیں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بعض معاملات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے، توہین عدالت کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلائیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کرکے فائر کریں پتہ تو چلے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کردیا۔

سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ انتخابات کیلئے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے، نگراں حکومت کی تعیناتی کا طریقۂ کار آئین میں ہے، نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، یہ پابندی انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر لگائی گئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہوجائے تو کیا ساڑھے 4 سال نگراں حکومت رہے گی، کیا ساڑھے 4 سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟۔ سجیل سوات نے دلائل دیئے کہ ساڑھے 4 سال نگراں حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرے گی، آئین کے ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دن کی تاخیر کا مداوا ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے منتخب حکومت آجائے، کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے؟ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ آئین کی منشا منتحب حکومتیں اور جہموریت ہی ہے، ملک کو منتخب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جہموریت کو بریک نہیں لگائی جاسکتی، 1973ء آئین بنا تو نگراں حکومتوں کا تصور نہیں تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگراں حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کیلئے شامل کی گئیں، شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیں،الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے، کل ارکان اسمبلی کیلئے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور ہوئی،الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے،ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے،الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے،الیکشن کمیشن کی استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے،الیکشن کمیشن نے چار لاکھ پچاس ہزار سیکیورٹی اہلکار مانگے،ساڑھے چار لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے،الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے،فوج کی سیکیورٹی کی ضرورت کیا ہے؟ فوج صرف سیکیورٹی کیلئے علامتی طور پر ہوتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دئیے کہ ایک بھی فوجی اہلکار آرام سے کسی کو روکے تو لوگ رک جاتے ہیں،جی ایس ایف لاہور کا بہت زبردست انتظام ہے کارڈ وغیرہ چیک کرا کے جاتے ہیں،جو پولنگ اسٹیشنز حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے،ہوم ورک کرکے آئیں پتہ تو چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے کارروائی کرسکتا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔

کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ،الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔