آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔ سپریم کورٹ

صدر مملکت کو ایسا کیا مسئلہ ہے جو رائے مانگ رہے ہیں۔جسٹس جمال خان

Mar 25, 2022 | 18:21:PM
آئین۔ریفرنس۔حلف۔انحراف۔ڈی سیٹ۔پارٹی ٹکٹ
کیپشن: سپریم کورٹ کی عمارت
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز) سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق جمعہ کو سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کےلئے دائر صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ ، جسٹس جمال خان نے سوال اٹھایا کہ صدر مملکت کو ایسا کیا مسئلہ ہے جو رائے مانگ رہے ہیں۔ صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہے جس پر سوال پوچھے۔ وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبرساتھ دینے کا پابند ہے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، ارکان اسمبلی ربڑ اسٹمپ نہیں ہوتے، پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، 
 پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا، مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاو¿س میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے، قرآن میں خیانت کی بہت سخت سزا ہے، اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے، کیا کوئی رکن بھی ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا؟جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفکیٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے، وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ برصغیر میں بڑے لیڈرز کے نام سے سیاسی جماعتی آج بھی قائم ہیں، مسلم لیگ اور کانگریس بڑے لیڈرز کی جماعتیں ہیں، پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی اجلاس ہوتے ہیں، ارکان اسمبلی ربڑ سٹمپ نہیں ہوتے، پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کیخلاف جایا جائے۔جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفاکیوں دے؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہر شخص کو آئین اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے، کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہئے ؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارکان اسمبلی صرف 4 مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا؟ 62 ون ایف کوالیفیکشن کی بات کرتا ہے،62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومتی جماعت کے لوگوں کا سندھ ہاو¿س میں جاتے ہی ضمیر جاگ گیا۔جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ وزیراعظم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو کیا رکن مخالفت نہیں کر سکتا؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگے گا؟ آرٹیکل 63 اے نشست خالی ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنے کے بعد استعفا دے دے تو کیا ہو گا؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انڈیا میں ایک رکن نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیکر استعفادیا تھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیا تھا، پارٹی سے انحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 بناتے وقت کس چیز کا خوف تھا، پارلیمنٹ نے ڈی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہ کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بھی پارلیمنٹ نے نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں عدالت کا کردار شامل ہے، ڈیکلریشن دینے والی عدالت الیکشن ٹربیونل بھی ہو سکتی ہے، کیا الیکشن کمیشن عدالت ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری نظر میں الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں تو ڈیکلریشن کون دےگا؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے بھی آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی شامل کی جاسکتی تھی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ووٹ شمار نہ ہو تو دوسری کشتی میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ دفعہ 302 بھی قتل سے نہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہو رہے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت رکن اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے؟ رکن پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کرے گا تو آئینی نتائج بھگتے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت آج تک کوئی نااہل نہیں ہوا ، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں۔اٹارنی جنرل کی جانب سے پیر کے روز 2 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی یقین دہانی کے بعد صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر کو دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔
 یہ بھی پڑھیں۔اسلام آباد کی منڈی میں ضمیر کے بدلے 25 کروڑ تک آفر ,ایمان والے کو کوئی خرید نہیں سکتا،عمران خان