جہنم کا دروازہ یا بہتا ہوا لاوا، زمین کے مرکز تک پہنچنا ممکن ہے یا نہیں؟

Jul 24, 2023 | 23:37:PM
جہنم کا دروازہ یا بہتا ہوا لاوا، زمین کے مرکز تک پہنچنا ممکن ہے یا نہیں؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) کیا زمین کے مرکز تک پہنچا جا سکتا ہے؟ زمین کے مرکز تک پہنچنے کیلئے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے جیسے نیچے کی طرف سفر کریں کیا کیا ملے گا اور کونسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ کیا زیر زمین زندگی بسر کرنا ممکن ہے؟
سائنس کے نام پر چچا اور بھتیجے نے آئس لینڈ کا سفرباندھا  جہاں سے انھوں نے ایک مقامی گائیڈ ہنس بیجلکے کے ہمراہ کرہ ارض کی گہرائیوں کو جاننے کا  ارداہ کیا، یہ سفر ایک بجھے ہوئے آتش فشاں تک پہنچا اور وہاں ان تینوں مہم جوؤں کو چمکدار چٹانوں، اینٹیڈیلویئن جنگلات اورحیران کن سمندری زندگی پر مبنی ایک الگ جہاں ملا،جو زندہ ماضی انسانی وجود کی ابتدا کے راز کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 3 سالہ بچہ  40 فٹ گہرے کنویں میں جا گرا، پھر کیا ہوا؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

سائنس فکشن کے ماننے والوں کے مطابق  زمین کےمرکز کی کہانی فرانسیسی مصنف جولس ورن کے تخیلقی ذہن سے نکلی ہے جنھوں نے اپنی مرتب کی ہوئی  تصنیف 'جرنی ٹو دی سینٹر آف دی ارتھ' میں اس وقت کے نظریات کو دریافت کیا کہ ہمارے پاؤں کے نیچے کیا ہے،مگر جب ہم زمین کے 6,371 کلومیٹر نیچے چلے جاتے ہیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آج سائنسداں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ زمین کے اندر کا مرکز چھ ہزار تین سو اکتہر کلو میٹر پر واقع ہے۔
زمین تہہ در تہہ بنی ہوئی ہے یعنی کسی حد تک پیاز کے چھلکوں  کیطرح ہے، جہاں ہمارا علم ہے زندگی صرف پہلی یا اوپری تہہ یعنی کرسٹ پر موجود ہے،جس میں آپ کو چھچھوندر اور بیجر یا  جیسی مخلوق کے  بل ملتے ہیں،سب سے گہرے بل دریائے نیل کے مگرمچھوں نے بنائے ہیں جو بارہ میٹر کی گہرائی تک جاتے ہیں۔پہلی تہہ(کرسٹ) قدیم زیرِزمین شہروں کا مسکن بھی ہے جیسے ترکی کا ایلینگوبو جسے آج ڈیرنکویو کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ زمین کی سطح سے 85 میٹر سے زیادہ نیچے ہےاور یہ شہر تقریباً 370 سال قبل مسیح بنایا گیا تھا اور ہزاروں سالوں تک تقریباً مستقل استعمال میں تھا۔
دنیا کی سب سے گہری کانیں تقریب4کلومیٹر نیچے تک گہرائی میں جا سکتی ہیں،جنوبی افریقہ میں سونے کی کان کے کان کنوں کو 2کلومیٹر گہرائی میں حشراتی مخلوقات ملی  ہیں، لیکن3 کلومیٹر تک پہنچتے پہنچتے تمام طرح کی زندگی  کے آثار ختم ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افسوسناک خبر؛ایک اور کشتی حادثے کا شکار، ہلاکتیں
اس کے بعد اب تک کا سب سے گہرا سوراخ روس میں کولا کا انتہائی گہرا کنواں ہے،بعض لوگ اسے جہنم کا دروازہ کہتے ہیں اور مقامی باشندے وہاں سے اذیت زدہ روحوں کی چیخیں سننے کا دعویٰ بھی  کرتے ہیں۔ 

سائنسدانوں کے مطابق 30 سے 50 کلومیٹر گہرائی کے درمیان ہم اگلی تہہ تک پہنچتے ہیں جسے مینٹل کہتے ہیں،یہ ہمارے سیارے کا سب سے بڑا خطہ ہے ،یہ گرم چٹانوں سے بنا ہوا خطہ ہے جو ہمیں ٹھوس معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بہت سست رفتاری سے بہتا ہے یعنی سال میں صرف چند سینٹی میٹر،نیچے کی یہ خفیف تبدیلیاں اوپری تہہ پر زلزلوں کو جنم دے سکتی ہیں۔
یہاں ایک چمکتا ہوا سمندر بھی ہے جو اتنا بڑا ہے کہ اس میں روئے زمین پر موجود تمام سمندروں کا پانی سما سکتا ہے۔

تاہم، اس میں مائع کی ایک بوند بھی نہیں ہے،جو کہ میگنیشیم اور لوہے کے چمکدار غلاف کے اندر پھنسے ہوئے پانی سے بنا ہے جو اوپری مینٹل کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ہے،جیسے جیسے ہم نیچے جاتے ہیں، بڑھتے ہوئے دباؤ کا مطلب یہ ہے کہ ایٹم کی شکل بگڑ جاتی ہے،وہاں ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے جس میں چٹان پلاسٹک کی طرح کمزور ہو جاتے ہیں اور وہاں معدنیات اتنے نایاب ہیں کہ وہ سیارے کی سطح پر موجود نہیں ہیں،2900 کلومیٹر کی گہرائی میں ہم مینٹل کی تہہ  تک پہنچتے ہیں۔
ان کی گہرائیوں کے تخمینے مختلف جگہوں پر مختلف ہیں لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ توزو 800 کلومیٹر تک گہرا ہے، جو کہ اوپر تلے تقریباً 90 ایورسٹ پہاڑوں کے برابر ہے۔
جبکہ جیسن کہیں کہیں 1800 کلومیٹر تک گہرا ہے جو کے تقریباً 203 ایورسٹ کے برابر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں حج و عمرہ پر جانے والوں کیلئے بیگ میں کن اشیا کا ہوناضروری ہے؟

جولس ورن کے کلاسک ناول میں پروفیسر لڈن بروک کو ایک پوری زیرزمین دنیا کا سامنا رہتا ہے،اگرچہ ڈائنوسارز تھوڑی اوپری تہہ پر رہے ہوں گے لیکن وہاں واقعتاً مائع دھات کا ایک سمندر ہے جو ہلکی اور سست رفتار لہروں کے ساتھ سرخ گرم بہتا ہے۔ اس میں طوفان بھی اٹھتے ہیں جو مائع دھات کے طوفان ہیں۔اس نقل و حرکت سے ایک میگنیٹک فیلڈ پیدا ہوتی ہے جس کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں ہوتی۔
پھر وہاں سے ہم آخری تہہ پر آتے ہیں جسے اندرونی کور کہا جاتا ہے اور یہ کرۂ ارض کی سب سے پراسرار چیزوں میں سے ایک ہے،یہ سورج کی سطح جتنا گرم اور چاند سے تھوڑی چھوٹی ٹھوس لوہے اور نِکل کی ایک انتہائی گھنی گیند ہے اور وہاں دباؤ اتنا شدید ہے کہ دھاتیں کرسٹلائز ہو کر ہمارے سیارے کے بیچ میں ایک ٹھوس کرہ بناتی ہیں۔وہاں حالات اتنے سخت ہیں یعنی چھ ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور 35 کروڑ فضائی دباؤ کہ کوئی بھی تحقیقات اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
خیال رہے کہ یہ دھاتی سمندر میں معلق وہ بلوری دنیا ہے جو ایک معمہ ہے اور شاید ہمیشہ معمہ ہی رہے گی۔