فواد چودھری اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کیخلاف درج مقدمات کی تفصیل طلب

Oct 21, 2022 | 11:23:AM
اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو ہفتوں میں ملک بھر کے تھانوں میں مدینہ منورہ واقعے پر فواد چودھری اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل طلب کرلی
کیپشن: اسلام آباد ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو ہفتوں میں ملک بھر کے تھانوں میں مدینہ منورہ واقعے پر فواد چودھری اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل طلب کرلی۔

یہ بھی پڑھیں:فواد چوہدری نے اپنا’’کارنامہ‘‘موجودہ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ،سوشل میڈیا صارفین نے پکڑ لیا

اسلام آباد ہائیکورٹ میں فواد چودھری اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کے خلاف مقدمات اندراج کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے استفسار کیا اسپیکر کی جانب سے کون آیا ہے ؟ وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق جو رکن پارلیمنٹ بھی گرفتار ہو اسے اجلاس میں شرکت کی اجازت ہوگی۔ وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن پارلیمنٹ کو گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تو بہت اچھے رولز بنائے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پٹیشن پر تو رولز میں بھی ترمیم ہوگئی ہے، رولز میں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ اجلاس کے دوران اب کوئی حلقہ نمائندگی کے بغیر نہیں رہے گا۔ اس پر وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن آ جائے کہ ان رولز پر عمل درآمد کا پہرہ بھی دینا ہے، اس کورٹ نے آئین کی سربلندی کے لیے جو کام کیا اس پر ہم مشکور ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ صرف اس کورٹ نے نہیں، سب عدالتیں ایسا ہی کرتی ہیں، آئین اپنی جگہ ہے جس کا احترام کرنا چاہئے۔ وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججز نے تو آئین کی پاسداری کا حلف لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسد قیصر صاحب جب اسپیکر تھے تو ایک پٹیشن آئی تھی، ہم نے یہی کہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی معاملہ زیر غور لا کر خود فیصلہ کریں گے، پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اب اسپیکر قومی اسمبلی کی صوابدید نہیں، عدالت توقع کرتی ہے کہ رولز میں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

فواد چودھری سمیت دیگر ارکان اسمبلی کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیل عدالت میں پیش نہ کی جاسکی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت یہ چیز کیسے روک سکتی ہے کہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج نہ ہوں ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں کوئی ایف آئی آر ہو تو وہ ہم سے تو نہیں پوچھیں گے، یہ اگر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بات کریں تو بہت اچھی بات ہے۔

چیف جسٹس نے نے استفسار کیا کہ جیو کے میر شکیل الرحمان پر توہین مذہب کے الزامات لگے، مقدمات درج ہوئے تھے، علی وزیر کے خلاف کتنے پرچے درج ہیں؟ پارلیمنٹیرینز کو ان کے بارے میں آواز اٹھانی چاہئے۔ اس پر وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ ن کہا کہ جو آواز اٹھائے شام کو وہ بھی اٹھایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نہیں نہیں، کوئی نہیں اٹھاتا۔

 ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے آئندہ سماعت پر مقدمات کی تفصیل جمع کرانے کی یقین دہانی کرا دی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیل جمع کیوں نہیں کرا رہی؟ ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے، استعفوں کی منظوری تک وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک اوپن اینڈڈ ایف آئی آر درج ہوئی جس میں پی ٹی آئی قیادت لکھ دیا گیا، پی ٹی آئی قیادت لکھ کر ایف آئی آر میں سب کو شامل کر لیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے کوئی عدالت میں نہیں آتا۔ وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ اپوزیشن کے ہی نصیب میں آتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت ملتوی کر دی۔