افغانستان میں خواتین آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم

افغانستان میں خواتین کیساتھ امتیازی سلوک کی تحقیقات انسانیت کیخلاف جرم کے طور پر کی جائیں: الجزیرہ

Nov 21, 2023 | 12:21:PM
افغانستان میں خواتین آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24 نیوز) افغانستان میں خواتین آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور تشدد نے خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کیے، آج کے دور میں بھی خواتین یہاں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

قطر کے بین الاقوامی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بہت ہی افغانستان کی قومی خواتین فٹبال ٹیم پاکستان فرار ہو گئیں، کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان خواتین فٹبالرز کو ہنگامی انسانی پر ویزے جاری کیے گئے، ادارے نے مطالبہ کیا کہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی تحقیقات انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر کی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں,1971 میں بہاریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی داستان

اقوام متحدہ (یو این) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی صورتحال 2002 سے پہلے کے دور کی طرف لوٹ گئی ہے،  طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو عوامی عہدوں اور عدلیہ سےمکمل طور پر خارج کر دیا گیا, پورےملک میں خواتین کو دنیا سے الگ کر کے جیل جیسے حالات پیدا کر دیے گئے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں زچگی کی اموات کی شرح اس کے تمام 6 پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے، 100,000 میں سے 650 افغانی نومولود بچوں کی اموات ایشیاء میں سب سے زیادہ ہیں۔

امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے مطابق فروری 2023 میں خواتین ڈاکٹرز کے زیر اہتمام 4 طبی مراکز بند کر دیے گئے، مئی 2023 میں طالبان حکام نے خواتین کی صحت کے مسائل کو اجاگر نہ کرنے کی ہدایات دیں، جون 2023 میں غیر ملکی این جی اوز پر کمیونٹی کی بنیاد پر تعلیمی پراگرامز پر پابندی لگا دی گئی، افغان حکومت نے خواتین کے کھیل اور پارکوں میں جانے پر بھی پابندی لگادی۔

امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کا مزید کہنا ہے کہ مارچ 2022 میں خواتین پر بغیر محرم کے صحت مراکز میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی، اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا، ستمبر 2021 میں خواتین کی وزارت امور کو تبلیغ اور برائی کی روک تھام کی وزارت سے تبدیل کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی؟حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کا اہم بیان سامنے آگیا

انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ کے مطابق افغان خواتین کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن صنفی تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔

 سکریٹری جنرل ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی سطح پر منظم اور وسیع طرز کے جرائم ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک اندازے کےمطابق طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 تک 51,000 زچگی اموات اور 4.8 ملین غیر ارادی حمل کا امکان ہو سکتا ہے۔

مقامی افغان باشندے کا کہنا ہے کہ خاندان کے تحفظ کے طور پر بیٹیوں کی جلدی شادی کرتے ہیں تا کہ ان کو طالبان فائٹرز سے شادی پر زبردستی مجبور نہ کیا جائے۔

افغان خواتین مسلسل اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہیں ہیں، افغان حکومت نے خواتین کی کمیونٹی سروسز کو بھی نشانہ بنایا۔