عدلیہ نے ماضی  میں ایسے متنازعہ فیصلے کئے  جس کا خمیازہ  پوری قوم کو بھگتنا پڑا، پروگرام DNAمیں تجزیہ کاروں کی رائے

Nov 21, 2021 | 00:05:AM
پروگرام ، ڈی این اے
کیپشن: پروگرام ’ ڈی این اے(فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( 24 نیوز) پاکستان کی عدلیہ نے ماضی  میں ایسے متنازعہ فیصلے کئے  جس کا خمیازہ  پوری قوم کو بھگتنا پڑا ، عدلیہ دباؤ کا شکار بھی رہی اور مصلحتوں  کے تحت فیصلے بھی کئے ,  جس جرات و ہمت کی بات  چیف جسٹس گلزار احمد نے کی   بدقسمتی سے ہماری عدلیہ میں اس کا فقدان رہا ہے  ۔ان خیلالات کا اظہار  سلیم بخاری ، افتخار احمد ، پی جے میر اور جاوید اقبال نے   24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں انسانی حقوق کی  علمبردار عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ کانفرنس  میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججوں کی تقاریر کے حوالے سے  گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

تفصیلات کے مطابق پروگرام میں معروف تجزیہ نگار سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ  سپریم کورٹ  ، چیف جسٹس پاکستان اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس  ہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن ان کا فرمایا ہوا ہر لفظ  سچ نہیں ہے،  پاکستان کی تاریخ میں ایسے فیصلے موجود ہیں جن کے باعث قوم  کا سرجھکا اور عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ،  تاریخ  ذوالفقار علی بھٹو  کا ٹرائل اپنے صفحات سےمٹا نہیں سکتی  ، پرویز مشرف  کو تین سال تک وردی میں قبول کرنے اور آئین میں مرضی سے ترامیم کرنے کی اجازت عدلیہ ہی نے دی تھی۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ علی احمد کرد نے جو گفتگو کی اسے اشتعال انگیز قرار دے کر ہم حقائق  سے نظریں  نہیں چرا سکتے  ، دنیا بدل رہی ہے اب  دباؤ کے ذریعےخاموش کرانا ممکن نہیں ہے ، ان کا کہنا تھا نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی دس والیمز کے ثبوت کہاں ہیں ، جے آئی ٹی کہا ں ہے   جس کی تحقیقات  کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو اسےپاناما کی بجائے اقامہ  پر سزا دے دی گئی۔  افتخار احمد  کا کہنا تھا ایسا ملک جو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا میں 130ویں نمبر پر ہے  جہاں لاکھوں مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور انصاف  کا  یہ عالم ہے کہ سزائے موت دینے کے بعد ندامت اور پچھتاوے کا اظہار کیا جاتا ہے  ۔   پی جے میر کا کہنا تھا کہ  ہماری عدلیہ  مختلف قوانین کے درمیان  پھنس کر رہ گئی ہے۔  علی احمد کرد نے جوجذباتی تقریر کی  یہ اس کا موقع نہیں تھا ۔ یہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس تھی نہ کہ کوئی  سیاسی جلسہ تھا ، صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے درست کہا کہ   علی احمد کرد انتشار کو ہوا دے رہے ہیں لیکن چیف جسٹس  پاکستان کو علی احمد کرد کی  باتوں کا جواب نہیں دینا چاہیے تھا ۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ   پاکستان کی عدلیہ کا کردار اس کے فیصلوں کے حوالے سے ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔   جوڈیشل ایکٹوزم  اور عدلیہ بچاؤ تحریک میں عدلیہ کے وقار کو جو   دھچکا  لگا اور جس طرح عدلیہ   سے مرضی کے فیصلے کرائے گئے   وہ   سیاہ باب ہے  جب ہم جمہوریت کی  بھیک کی بات کرتے ہیں تو ہمیں جمہوریت  کو پہنچائے گئے ناقابل تلافی نقصان  پر بھی نادم ہونا چاہئے   ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ  اطہر من اللہ نے   اس جانب اشارہ کیا ہے  کہ ریت میں سر نہیں  چھپا سکتے ۔غلطیاں تسلیم کرنی  چاہئیں ۔ ڈی این اے میں تجزیہ کاروں نے مولانا فصل الرحمان کے پشاور میں خطاب پر بھی  گفتگو کی  سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ  مولانا فصل الرحمان  کی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا    وہ کہہ رہے ہیں کہ  ارکان پارلیمنٹ کو فون کرکے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آنے اور حکومت کے قوانین کو منظور کرنے  کی ہدایات جاری کی گئیں  ، جس طرح صادق سنجرانی کو سپیکر بنوایا گیا اسی طریقے سےسینیٹ اور قومی اسمبلی   سے  تمام قوانین بھی  منظور کرائے گئے ۔  مولانا کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ  جس ملک میں دہشت گردوں کے خلاف فوج نے  آپریشن رد الفساد اور ضرب عضب  کئے وہاں اگر حکومت دہشت گردوں  سے ان کی شرائط پر مذاکرات کرے گی تو ہر حلقے کو اس پر تشویش  ہوگی، جب پارلیمنٹ   ، عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ  کو ایک مخصوص سمت کی جانب دھکیلا جا رہا ہو تو وہ غیر معمولی حالات  کی جانب  اشارہ ہے۔   پی جے نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا کردار بھی ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین  بنے تو ان پر یورپ میں  بین لگا دیا گیا ،ان کا کام ہے مایوسی پھیلانا  لیکن لوگ ان سے مایوس ہیں اس لئے انہیں گزشتہ الیکشن میں ناکامی ہوئی  ۔     پی جے کا موقف تھا کہ  کلبھوشن کے معاملے کو عالمی قوانین کے تحت  دیکھنا  ہوگا نہ کہ  جذباتی انداز مین ہم کلبھوشن کو پھانسی نہیں دے سکتے ورنہ بھارت کی جیلوں میں قید ہمارے لوگوں کو بھی پھانسی پر لٹکایا جا ئے گا ۔

یہ بھی پڑھیں:حارث رؤف  کس اداکارہ کے ساتھ کھانے پر جانے کیلئے تیار۔؟ ۔ویڈیو وائرل