پی ڈی ایم متحد،استعفے کبھی بھی آخری آپشن نہیں تھے،مولانا فضل الرحمان

Mar 17, 2021 | 18:04:PM
پی ڈی ایم متحد،استعفے کبھی بھی آخری آپشن نہیں تھے،مولانا فضل الرحمان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ لا نگ ما ر چ حکومت کو پریشان رکھنے کیلئے ملتوی کیا ہے ۔اسمبلیوں سے استعفے پی ڈی ایم کے آغاز  میں ہی شامل کیے گئے اورکبھی بھی کسی نے بھی یہ کہیں نہیں کہا  کہ حتمی آپشن یا ایٹم بم کی طرح استعمال ہوں گے۔

تفصیلات کے مطا بق  پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختصر الفاظ میں کہہ دیتا ہوں کہ پی ڈی ایم متحد ہے، مختلف مسائل پر اختلاف رائے ہوتی ہے اورکل بھی مختلف رائے آئی۔مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آدھا ایوان خالی ہو گیا تو انھیں استعفے دینا پڑیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پی ڈی ایم بنا رہے تھے تو اس وقت ہم نے استعفے کا آپشن رکھا تھا اور اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حتمی آپشن ہوگا، ایٹم بم کی طرح ایسا کہیں نہیں لکھا۔پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے جلسے کیے اورلوگوں کا ردعمل دیکھا اور اب جب ہم نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف مارچ ہوگا تو 10 میں سے 9 جماعتوں کی رائے تھی کہ ہم جائیں تو استعفے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی بات نہیں کہ پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دے دیں، آدھا ایوان خالی ہوجائے گا اور انہیں الیکشن کرنے پڑیں گےلیکن پیپلزپارٹی نے نہیں بنایا۔ہمارے ہاں مجالس کی اندر کی کہانی اصل میں راز ہوتی ہے جس کو افشاں کرنا خیانت اور بددیانت ہوتی ہے لیکن ایسا ہوا اور پیپلزپارٹی کو چند دن کی مہلت دی گئی کہ سی ای سی کے سامنے 9 جماعتوں کا موقف رکھیں اورہمیں بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 جماعتوں کا موقف واضح طور پر سامنے آیا ہے اور پیپلزپارٹی کے موقف کا انتظار ہے، خدا کرے ان کو یہ بات سمجھ آئے اور9 جماعتوں کی رائے کا احترام کریں، پی ڈی ایم کے رکن اور ساتھ رہیں، ہم ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں خارجہ پالیسی کے موضوع میں اسرائیل اور برطانیہ دونوں کا ذکر موجود ہے، گزشتہ دو برسوں میں ہم آرام سے نہیں بیٹھے اور انہیں اس ایجنڈے پر پیش رفت بھی نہیں ہونے دی۔ان کا کہنا تھا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے 4 سال تک حکومت اور بیورکریسی کے گفتگو کی کہ آئیے ہم نصاب ایک کریں لیکن پذیرائی نہیں بخشی گئی، تب جا کر دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے کہا کہ آج بین الاقوامی دبا  ئو کے تحت دینی علوم کے مراکز پر پہلے مداخلت کرنا چاہتے ہو، اس کے کردار کو کمزور کرکے بالآخر ختم کرنا چاہتے ہو لیکن ہم دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ دینی علوم کا تحفظ کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے اس قوم کے ساتھ کیا کردیا،ڈیڑھ کروڑ کی پشتون قبائلی آبادی کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، اس حوالے سے رپورٹ میرے سامنے رکھی گئی تھی جس کو میں نے حقائق کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود لکھا کہ قبائلی علاقوں کو ہم 10 سال تک ایک ہزار ارب روپے دیں گے یعنی ہرسال 100 ارب تاکہ قبائلی علاقوں کو دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے لیکن 5 سال ہوگئے ہیں لیکن ایک روپیہ نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے کام ہوئے ہوں گے لیکن اس رپورٹ میں جو کہا گیا تھا اس کے مطابق ایک روپیہ نہیں دیا گیا، وہاں سرے سے لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے، وہاں زمین کی تقسیم کیسے ہوگی، آج قبائل آپس میں لڑ رہے ہیں اور یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، اس کے لیے ایک پیپر تیار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جو آئینی ترمیم تیار کی گئی تھی کیا وہ آئینی تقاضوں کے مطابق تھی، اس پر کیا ایوان میں بحث ہوئی، کیا لوگوں کی رائے سنی گئی، کچھ بھی نہیں کیا گیا، میں نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود اکیلے اس کی مخالفت کی جبکہ دیگر اپوزیشن سب ایک ساتھ تھے۔ بین الاقوامی ایجنڈا آتا ہے تو ہماری اپوزیشن اور حکومت اکٹھی ہوجاتی ہے۔