وہ دن جو قوم پر کوہ گراں گزرا

سقوط ڈھاکا پاکستان کے وجود پر ایسا زخم ہے جو دسمبر آتے ہی پھر سے تر وتازہ ہوجاتا ہے،16 دسمبر 1971 کا سانحہ خود میں درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہے

Dec 16, 2022 | 14:49:PM
سقوط ڈھاکا, پاکستان, عوامی لیگ, شیخ مجیب الرحمان, آرمی چیف, جنرل قمر جاوید باجوہ, ناصر زیدی, فریدہ حفیظ, فیروز پور
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(اظہر تھراج )سقوط ڈھاکا پاکستان کے وجود پر ایسا زخم ہے جو دسمبر آتے ہی پھر سے تر وتازہ ہوجاتا ہے،16 دسمبر 1971 کا سانحہ خود میں درد و الم اور خونریزی کی داستان سمیٹے ہوئے ہے،سقوط ڈھاکا سے وابستہ واقعات اور حالات کی داستانیں بھی اپنے اندر کئی سچ چھپائے ہوئے ہیں،سیاسی قیادت بنگلہ دیش بننے کا ذمہ دار عسکری قیادت کو قرار دیتی ہے تو عسکری قیادت سیاسی قیادت کو قصور وار ٹھہراتی ہے لیکن اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے والی حمود الرحمنٰ کمیشن رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آسکی ۔

1970 کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کو واضح اور بھاری اکثریت کے بعد بھی اقتدار نہ ملنے کے بعد مشرقی پاکستان کی جانب سے علیحدگی کی جنگ شروع ہو گئی جس کا اختتام 16 دسمبر کو ڈھاکہ کے رمنا ریس کورس گراؤنڈ پر ہوا جب پاکستان کی جانب سے شکست تسلیم کر لی گئی۔یہ وہ واقعہ ہے جو آج بھی پاکستانیوں کے لئے  ویسا ہی تکلیف دہ ہے جیسا 1971 میں تھا ،غیرملکی اخبارات کے صفحات  بتاتے ہیں کہ پاکستان کے 90 ہزار فوجی سقوط ڈھاکا کے وقت قیدی بنے لیکن حال ہی میں آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں بتایا کہ پاکستان کے 90 ہزار نہیں صرف 34 ہزار فوجی تھے،ان میں کچھ سیویلین بھی تھے جو قید ہوئے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سقوط ڈھاکا کی ذمہ دار سیاست تھی ۔اس وقت اطلاعات کی کیا حالت تھی ؟عوام کیا سوچ رہے تھے؟ اور ہوا کیا اس وقت کے صحافی ان واقعات کے چشم دید گواہ ہیں ۔
ضرور پڑھیں :سانحہ مشرقی پاکستان کو رونما ہوئے51 برس بیت گئے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی ناصر زیدی کہتے ہیں کہ 16 دسمبر کو، یحیی خان ایک دن پہلے قومی براڈکاسٹ پر آتے ہیں اور بڑا واضح اعلان کرتے ہیں کہ ہم آخری دم تک لڑیں گے۔لیکن 16 دسمبر کو سرنڈر کے کاغذات پر دستخط ہو چکے تھے، جنرل نیازی وہ سائن کر چکے تھے۔ مشرقی پاکستان میں فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور دشمن فتح کا اعلان کر چکا تھا۔16 دسمبر کی رات کو ہمیں پتہ چل گیا تھا لیکن 17 دسمبر کے اخبار میں وہ خبر ہی نہیں تھی۔ ہم جو خبر دینے والے تھے لوگوں کو یہ نہ بتا سکے کہ ایک ملک کا حصہ ہم سے جدا ہو گیا۔ ہم کٹ چکے ہیں، ہمارا ملک ٹوٹ چکا ہے۔میں نے بوڑھے لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا اور نوجوان سکتے کی کیفیت میں تھے، کسی سے گفتگو نہیں کر رہے تھے۔

مشرق اخبار سے وابستہ سابق خاتون رپورٹر فریدہ حفیظ بتاتی ہیں کہ جب ’ادھر ہم، ادھر تم‘ کی باتیں ہوئیں تو ہم نے سنا کہ فوجی کارروائی ہونے والی ہے۔یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں فوجی ایکشن کا شاید 25 مارچ کو فیصلہ کیا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز پر تقسیم ہوتی ہے۔ ہماری فوج کا اپنے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا جو خیال تھا، وہ لوگوں کو پسند نہیں تھا۔فوج نے اپنا ایکشن شروع کیا اور خبریں آنے لگیں کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یہ شاید دسمبر 1971 کے شروع کی بات ہے کہ خبر آئی کہ انڈیا نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے۔ہم دفتر گئے تو لوگ بڑے اداس بیٹھے ہوئے تھے، رو رہے تھے۔ میں اپنے نیوز روم کی بات کر رہی ہوں، اس وقت نیوز روم میں سب کھڑکیاں بند تھیں اور ایک ہی کمرہ تھا جس میں سب بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور وہاں ٹیلی پرنٹرز ہوتے تھے۔

خاتون صحافی بتاتی ہیں کہ ہم کچھ دوست فیروز پور  سرحد پر گئے تو وہاں پر فوجی بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ یہاں تک نہیں آنا چاہیے تھا، فائرنگ بھی ہو رہی ہے اور جہاز بھی آ رہے ہیں۔وہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ جہاز آئے اور ہم سارے خندقوں میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی کہ باہر آ جائیں۔میں نے دفتر آکر تصاویر کے ساتھ مضمون لکھ دیا ،دوسرے روز چھپا تو ملک میں تھرتھلی مچ گئی ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر جنگی واقعات پر رپورٹنگ پر پابندی لگ گئی ۔

مشرق اخبار سے وابستہ صحافی علی احمد خان بتاتے ہیں کہ  مشرقی پاکستان جو گورنمنٹ چل رہی تھی   وہ پوری کی پوری ’حکومت مخالف‘ ہی چل رہی تھی۔ چھ نکات کا مسئلہ چل رہا تھا، پھر طلبہ کے 11 نکات کا مسئلہ چل رہا تھا، ٹریڈ یونین بڑی فعال ہوئی تھیں: یہ خبریں عام طور پر اخبارات میں اس طرح سے نہیں چھپتی تھیں یا اس جذبے کے ساتھ نہیں چھپتی تھیں جس کہ ساتھ چھپنی چاہییں تھی۔

سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار  سیاستدانوں کو اس لئے  بھی ٹھہرایا جاتا ہے کہ  1970کے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کے حوالے سے  روزنامہ آزاد میں ’ادھر ہم ادھر تم ` کی سرخی لگی ،یہ سرخی  تاریخ کا حصہ ہے،اس سرخی کو لگانے والے ایڈیٹر عباس اطہر تھے  جو 2013 میں انتقال کرگئے تھے۔انہوں نے اپنے انتقال سے قبل ایک انٹرویو میں واضح کردیا تھا کہ یہ الفاظ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نہیں تھے۔بلکہ یہ الفاظ ان کی تقریر سے ماخوذ تھے جو انہوں ایک سیاسی جلسہ میں کی ۔اس جلسہ میں عباس اطہر مرحوم خود بھی موجود تھے۔

سقوط ڈھاکا کا ذمہ دار کوئی بھی ہو،اس میں جس کسی کا بھی حصہ ہو،یہ بات تو واضح ہے کہ آخری وقت تک قوم کو اندھیرے میں رکھا گیا ،ان تک صحیح اطلاعات نہیں پہنچائی گئیں ۔عالمی میڈیا کچھ کہہ رہا تھا اور پاکستان کا سرکاری اور غیر سرکاری میں کچھ اور خبریں چھپ رہی تھیں ۔