’’قانون بننے سے پہلے ہی بینچ بن گیا‘‘سینیئر صحافیوں نے اندر کی خبر بتا دی

Apr 13, 2023 | 18:18:PM
’’قانون بننے سے پہلے ہی بینچ بن گیا‘‘سینیئر صحافیوں نے اندر کی خبر بتا دی
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) چیف جسٹس کے اختیارات کے دائرہ کار میں تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے بل پر سپریم کورٹ کے بینچ تشکیل دیئے جانے پر سینئر صحافیوں نے اندر کی خبر بتا دی ہے۔

اپنے وی لاگ میں صحافی اسد طور کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی اختیارات کو کنٹرول کرنے والا بل جو ابھی تک قانون نہیں بنا اس کیلئے آج آٹھ رکنی بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنایا گیا۔ وہ آتھ رکنی بینچ جسے  چیف جسٹس کا فل کورٹ بھی کہا جاتا ہے، 

اس بینچ نے آج اس بل کیلئے سماعت کی ہے۔ بل کیخلاف درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے سوا گھنٹے تک دلائل دیے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ججوں کی جانب سے پہلا ریمارکس 45 منٹ کے بعد آیا جو کہ عام سماعت کے دوران ایک یا دو منٹ کے بعد آ جاتا ہے، درخواست گزار وکیل نے استدعا کی کہ پارلیمان کی جانب سے پاس کیے جانے والے بل کا نوٹیفیکیشن روک دیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کو 21 ارب کی فراہمی کا بل قومی اسمبلی سے مسترد

درخواست گزار وکیل کی استدعا پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ بڑا اہم سوال ہے ، آئینی سوال ہے عدالت کی خودمختاری کا، ہم اس کا جائزہ لیں گے کہ کہیں یہ بل آئین و قانون یا عدالت کی خودمختاری سے متصادم تو نہیں ہے، اس سلسلے میں اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ بار کونسل اور سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں کہ وہ بھی اس کا جائزہ لیں، آج اس بل کے نوٹس کو روکنے کے حکم بارے میں اپنے ساتھی ججوں سے مشورہ بھی کر لیتا ہوں کیونکہ اگلی جمعرات تک ہمارے پاس اس بل کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا وقت موجود ہے، اس دوران ہم اس کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور اپنے ساتھی ججوں کی دستیابی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس پر ایک اور سماعت بھی کر سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حسن ایوب کا کہنا ہے کہ  آج کی کارروائی صرف قانون بننے سے پہلے بینچ بنانے کیلئے تھی، ابھی یہ کوئی حکم دیں یہ نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو قانون بنے گا اس کا اطلاق اس آٹھ رکنی بینچ پر نہیں ہو گا، اگر یہ بینچ قانون بننے کے بعد تشکیل دیا جاتا تو اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہ ہوتی اور نہ ہی یہ قانونی طور پر تشکیل دیا جا سکتا تھا،  بینچ اس لیے تشکیل دیا گیا ہے تا کہ اگر قانون بنتا بھی ہے تو اس کو روکا جا سکے، یہ عدالت قانون نافز ہونے سے پہلے اس کے خلاف کوئی حکم نہیں دے گی، یہ بینچ 20 تاریخ کے بعد ہی ان ایکشن آئے گا، پھر کچھ لو اور کچھ دو والا معاملہ ہو گا، اس وقت میری اطلاع کے مطابق اٹارنی جنرل ان کے درمیان پیغامات کی ترسیل والا معاملہ دیکھ رہا ہے۔ 

لازمی پڑھیں: پارلیمنٹ کے اختیارات، حکومتی اتحاد نے ردِ عمل دیدیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کی سماعت میں بڑی تعجب کی بات یہ تھی کہ معزز جج صاحبان 45 منٹ تک خاموش رہے اس دوران اس وکیل سے حقِ دعویٰ تک نہیں پوچھا گیا، وفاقی کابینہ، سینٹ، اور قومی اسمبلی سب نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے تو آپ اس سے متاثر کس طرح ہیں یہ بات پوچھی تک ہی نہیں۔

اسد طور کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا حکومت کی جیت اس میں ہے کہ آٹھ ججز میں سے کسی ایک یا دو کو اپنی طرف کر لیں؟ جس پر سینئر صحافی حسنات ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کی ہار یا جیت کیوں ہو گی ہار ہو گی تو پارلیمنٹ کی ہو گی، یہ پارلیمنٹ کا وہ معاملہ ہے کہ ابھی قانون بنا ہی نہیں اس پر سپریم کورٹ عمل دخل کرے گی کہ ہم بل کو بھی جانچ سکتے ہیں، اس کے بعد یہ بھی ہو جائے گا کہ کوئی ایم این اے کوئی آئیڈیا سوچے بھی گا تو اس پر بھی چیف جسٹس صاحب سوموٹو لے کر اس میں عمل دخل کریں گے۔ 

سینئر صحافی کا حسنات ملک کے مطابق آج کی سماعت نے افتخار چوہدری کے دور کی یاد کو تازہ کر دیا اس وقت بھی اس طرح ہوتا تھا کیونکہ ان کو اپنے ججوں پر گرفت حاصل تھی یہ ان کا اپنا سٹائل تھا، وہ بھی اپنی مرضی کے وکلاء سے پٹیشنز کرواتے تھے آج بندیال صاحب نے بھی وہ ہی کام کیا، میرے خیال یہ تھا کہ 7 ججز میں سے بھی زیادہ تر کہیں گے کہ یہ پارلیمنٹ کا اختیار نہیں ہے اور ہم فل کورٹ کریں لیکن اپنی انا میں اپنی ضد میں ان کو بھی نہیں بتایا گیا، جسٹس عطر من اللہ کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں بھی یہ ہی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات قانون کے ذریعے کنٹرول کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ ہی کہا کہ رولز میں تبدیلی لائی جائے۔

اور پڑھیں: پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں میں فریقین کو نوٹس جاری

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2019 میں آصف سعید کھوسہ صاحب نے پرپوزل دیا جو یہاں پڑی ہوئی ہے جس پر بزدار صاحب نے فل کورٹ نہیں بلائی، پچھلے تین سال سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی کوئی فل کورٹ نہیں بلائی نس مسئلہ یہ ہی ہے کہ سب کچھ خود پر چھوڑا ہوا ہے، سپریم کورٹ کے ججز کو درپیش چیلنچز قانون کے مطابق ہی حل کرنے چاہیں، اگر قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو پارلیمنٹ کے پاس اختیارات ہیں۔

افتخار چوہدری سے لے کر اب تک کے تمام چیف جسٹس صاحبان نے سیاست کو ایک الگ شکل دی ہے، آئین کی شک 184 (3) کے مطابق اگر پارلیمنٹ کو اختیار ہے اور اس نے اپنے اختیار کا استعمال کر لیا ہے تو اس پر سارے ججز کو بٹھائیں خاص کر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی جو کہ مستقبل کے چیف جسٹس ہوں گے ان کو شامل کیا جائے، ابھی بل ہی بنا ہے قانون بھی نہیں بنا اور اس پر پہلے سے ہی بینچ تشکیل دے دیا گیا آخر کیوں ایسا کیا گیا ایسی کیا مجبوری تھی؟