الوداع چیف جسٹس الوداع،جاتے جاتے کیا کہہ گئے؟

Sep 12, 2023 | 11:53:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیا ل کا متنازعہ ترین سمجھے جانے والا دور کا آخری ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔اس ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی امور سے زیادہ عشائیے،ظہرانے،اور مختلف کانفرنسز میں شرکت کرینگے۔بنیادی طور پر یہ ان ہفتہ ان کی الوادعی تقریبات کا ہفتہ ہوگا۔جس کا آغاز آج نئی عدالتی سال کی تقریب سے ہوا جس میں عمر عطا بندیال نے خطاب کیا ،پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس برس کو ہیجان انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے، آئینی معاملات میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بطور چیف جسٹس آخری بار نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کر رہا ہوں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی، تمام واقعات آڈیو لیکس کیس میں اپنے فیصلے کا حصہ بنائے ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب میں گزشتہ برس کے دوران عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے زیر التوا مقدمات میں خاطر خواہ کمی نہ لانے کا اعتراف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کوشش تھی کہ زیر التوا مقدمات 50 ہزار سے کم ہوسکیں تاہم زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 2 ہزار کی کمی ہی کرسکے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزار مقدمات نمٹائے جبکہ گزشتہ سال نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد 18 ہزار تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام ساتھی ججز کا میرے ساتھ برتاؤ بہت اچھا رہا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک قابل تعریف شخصیت کے مالک ہیں، ہمارا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے، جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے لیکن میرے دل میں ان کے لیے عزت ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صحافی معاشرے کی کان اور آنکھ ہوتے ہیں، صحافیوں سے توقع ہوتی ہے وہ درست رپورٹنگ کریں گے، جہاں پر کوئی غلطی ہوئی اسے ہم نے نظر انداز کیا۔آج اس تقریب کا دوران چیف جسٹس اور اور سینئر کورٹ رپورٹر کے درمیان کچھ سردی گرمی بھی ہوئی ۔ان میں اسے ایک صحافی عبدالقیوم صدیقی بھی تھے ۔چیف جسٹس نے عبدالقیوم صدیقی کو اپنے ساتھ تصویر کھنچوانے کیلئے دعوت دی تو سینیئر صحافی نے معزرت کر لی۔ کہا "میں آپ کے ساتھ تصویر نہیں کھنچواوں گا۔ اگر اپ کا دھڑا ہے تو میں بھی دھڑے والا ہوں" جس پر چیف جسٹس نے پوچھا "صدیقی صاحب آپ کہیں ککے زئی تو نہیں؟" عبدالقیوم صدیقی نے کہا "میں جو ہوں وہی ہوں کم از کم بندیال نہیں ہوں" جس کے بعد چیف جسٹس نے آگے بڑھ کر سینیئر صحافی کیساتھ مصافحہ کر لیا !موجودہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ منصب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنبھالیں گے۔ ۔جسٹس بندیال اور ان کے ساتھی ججز نے اپنا بیش تر وقت اور توانائیاں مخالف کیمپ کے 'غیر معقول' رویے کے مقابلے میں خود کو مدبّر ثابت کرنے میں ضائع کیا۔اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے قریب ڈیڑھ سال کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو اسے ایک سانحہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ اس ناخوشگوار سفر کا آغاز ہی خراب ہوا تھا جب انہوں نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے تھے۔ یہ اقدام تشویش ناک تھا ۔ جسٹس بندیال کے دور میں ججوں کے مابین ناصرف یہ تقسیم گہری ہوئی بلکہ اس نے ایک ایسی خلیج پیدا کر دی جسے پر کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ان کی تباہ کن غلطی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو بے جا نشانہ بنانا تھی۔ ان کے خاندان کو جس بے رحم اور منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا وہ ناصرف پریشان کن تھا بلکہ اس نے پاکستان کے نظام انصاف کو بھی کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔ آرٹیکل 63 اے کی مبہم تشریح کے ذریعے آئین کو تقریبا بدل دیا جانا انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ان کے اس غیر آئینی فیصلے نے ایک ایسے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ور یہ سب کچھ بندیال سپریم کورٹ نے اپنی نگرانی میں کروایا۔ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی رولنگ کے وقت جب انہوں نے رات 12 بجے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کھولی تو اس وقت بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔لیکن یہ وہ اقدام ہے جس نے مکمل جمہوری اور آئینی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: