جسٹس اعجازالاحسن کے استعفیٰ کی وجہ سامنے آگئی

Jan 12, 2024 | 09:56:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بعد سنیارٹی لسٹ پر تیسرے نمبر موجود جج جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی اب سے کچھ دیر پہلے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوا دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن، سپریم کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے سینئر ترین جج تھے اور انہیں رواں سال اکتوبر میں اگلا چیف جسٹس بننا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے دو روز قبل سابق جسٹس مظاہرنقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے اختلاف کیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے آج سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ جس کے بعد اس اجلاس کے ملتوی ہونے کے امکانات تھے لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کونسل کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ان کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ کونسل کی کارروائی میں شریک ہوئے۔اس اجلاس کی کارروائی پر ہی گزشتہ دنوں نے جسٹس اعجاز الحسن نے اختلافی نوٹ لکھا تھا جس میں کونسل کارروائی کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے روکنے کی سفارش کی تھی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کونسل کی کارروائی روایات کے خلاف غیر ضروری اور جلد بازی میں کی جارہی ہے، جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا گیا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس فیصلے کی نفی ہے۔اس میں تجویز دی گئی کہ کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے چاہئیں، کونسل ممبران کے اختلاف کی صورت میں جج کے خلاف کارروائی غور و فکر کے بعد کرنی چاہیے۔ ان کے اختلافی نوٹ کے بعد بھی کونسل کا اجلاس بلائے جانے پر پہلے جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنا استعفیٰ دیا۔لیکن اس کے باوجود آج کونسل کا طے شدہ اجلاس بلایا گیا جس میں جسٹس اعجاز الحسن نے شرکت نہیں کی اور معذرت کر لی ۔ لیکن اس کا بھی کونسل اجلاس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور کارروائی جاری رہی جس کے بعد اب جسٹس اعجاز الحسن کے استعفیٰ کی خبر ہر ٹی وی سکرین کی زینت ہے۔آج ہئ جوڈیشل کونسل کے سربراہ اور چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں، پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے، شکایات جینوئن تھیں یا نہیں۔ چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تو جسٹس سردار طارق مسعود ،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے تاہم ممبر جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر کا کوئی وکیل بھی اجلاس کے سامنے پیش نہ ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی نقوی کا استعفی پڑھنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیاآپ کو استعفیٰ موصول ہوا؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو استعفیٰ پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی جس پر انہوں نے سابق جج کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ استعفیٰ آئین کی جس شق کے تحت دیا گیا وہ پڑھ دیں، اس پر اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 179 پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کونسل جسٹس اعجاز کے بغیرکارروائی کرسکتی ہے یا اگلے سینئرجج کولیناہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کونسل کو سینئر جج کو شامل کرنا ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کونسل میں شمولیت سے معذرت کرچکے، اگلے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں، جسٹس منصوردستیاب ہیں یا نہیں، معلوم کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری کونسل کو جسٹس منصور کی دستیابی معلوم کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور اگر دستیاب ہوئے تو دوبارہ کونسل بیٹھے گی، آئین کے آرٹیکل 209کی شق تین کے تحت کونسل میں اگرکوئی جج ناہو تو اگلے سینئرجج کوشامل کیاجا سکتا ہے، معاونت درکار ہوگی کہ اب ریفرنس پر کارروائی آگے چلے گی یا نہی۔ وقفے کے بعد چیئرمین جوڈیشل کونسل کی سربراہی میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ بطور ممبر کونسل اجلاس میں شریک ہوگئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ، یا تو جج کے خلاف شکایت جھوٹی تھی اور جج نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا، دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے ، جج اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہو چکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کونسل کی کارروائی استعفیٰ کے بعد رک جاتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کونسل نے اب کوئی نا کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے، اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن انہیں بتا دیتا ہے کہ آپ کو برطرف کرنے لگے ہیں اور وہ استعفی دے جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بینچ کا تھا جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور خواجہ حارث کو نوٹس جاری سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔اس حوالے سے ہدایت جاری کی گئی کہ جسٹس مظاہر نقوی اور ان کے وکیل کو کونسل کی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں 

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: