’’ بقا کی جنگ اور کشمیری رہنما ‘‘ رووا شاہ کی زبانی

Oct 11, 2022 | 14:59:PM
فائل فوٹو
کیپشن: ’’بقا کی جنگ اور کشمیری رہنما ‘‘ رووا شاہ کی زبانی
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(حافظہ فرسہ رانا)سید علی شاہ گیلانی جنہوں نے ساری زندگی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے گزاری،  وہ ایک ایسی جنگ میں ہے جس کے پاس جیتنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔مرحوم الطاف احمد شاہ کو حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کے داماد ہونے کی وجہ سے اذیت اور سزا دی جا رہی تھی۔اور آج وہ قصہ بھی تمام ہوا ان کا انتقال ہو گیا۔اپنے دادا ور والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ووا شاہ  نے ان کی زندگی کی جدوجہد کے متعلق بتانے کی کوشش کی ہے۔رُوا شاہ نے، جو ایک صحافی ہیں، اپنے والد کی بہتر طبی نگہداشت اور ان کی ضمانت کے لیے انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط بھی لکھا تھا جس میں ساری تفصیل کے بعد انھیں مخاطب کر کے کہا تھا: ’مُجھے اُمید ہے کہ آپ ایک ایسی بیٹی کی یہ درخواست قبول کریں گے جس کا باپ بسترِ مرگ پر ہے۔

 رووا شاہ  2018 سے گھر سے دور ہیں، ترکی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کے رابطے پر پابندیوں کی وجہ سے وہ اکثر اپنے خاندان سے بات کیے بغیر اور اپ ڈیٹس حاصل کیے بغیر دن گزارتی تھی۔ ترکی میں اپنے دادا کی صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ"دہلی کے ہوائی اڈے پراب تک سیل فون کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کب تک ہے یہ نہیں معلوم  تب ہی میں نے ایک خاتون کو بات کرتے ہوئے سنا کہ ’’اگر گیلانی کو کچھ ہوا،‘‘ واضح طور پر، میرے دادا کی صحت کے بارے میں افواہیں پوری کمیونٹی میں تیزی سے پھیل رہی تھیں‘‘۔  رووا شاہ  17 ماہ سے زیادہ عرصے سے گھر نہیں تھی اور میں اپنے خاندان اور خاص طور پر اپنے "ابا"(سید علی شاہ گیلانی) کو جلد از جلد دیکھنے کے لیے بے چین تھی۔گھر کی طرف جانے والی سڑکیں بکتر بند گاڑیوں سے لیس تھیں پولیس کی ایک گاڑی گھر کے دروازے کو روک رہی تھی۔

 یاد رہے کہ سید علی شاہ گیلانی کی صحت 5 اگست 2019 کے بعد تیزی سے بگڑ گئی – جس دن بھارتی حکومت نے کشمیر کی جزوی خودمختاری کو ختم کر دیا تھا۔ وہ ایک گہرے ڈپریشن میں پڑ گئے ان کی پارٹی کے تقریباً تمام ارکان سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وہ اداس اور تنہا ہے۔

سید علی شاہ گیلانی کئی طبی امراض کا شکار تھے۔ انہیں  2003 میں بھارتی شہر رانچی کی ایک جیل میں گردے کا کینسر ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کا ایک گردہ نکال دیا گیا تھا۔ ان کے دل میں پیس میکر ہے۔ وہ سینے میں شدید انفیکشن کا شکار ہے ۔وہ رووا شاہ  سے  پوچھتے کہ کیا ’’الطاف احمد شاہ کو دیکھا ہے، جو میرے دادا کی پارٹی کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ 2017 سے نئی دہلی میں قید ہیں  وہ مجھے کہتے کہ آپ کو قیدیوں سے ملنا چاہیے۔ ان سے کہو کہ’’ میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں اور ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی،‘‘انہوں نے مجھے بتایا۔ میرے والد ( الطاف احمد شاہ ) نے ابا ( سید علی شاہ گیلانی )کے ساتھ 35 سال سے زیادہ کام کیا۔  ابا (( الطاف احمد شاہ )میرے والد ( سید علی شاہ گیلانی )سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آخرکار انہوں نے ان کے لیے اپنی بیٹی یعنی میری والدہ سے شادی کرنے اور ان کے خاندان کا حصہ بنا لیا۔

 رووا شاہ کہتی ہے کہ ’’میں اپنے دادا سے زیادہ سے زیادہ بات کرنا چاہتی تھی  جب تک کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔ وہ ہمیشہ میری زندگی میں ایک اہم قوت رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے، 2013 میں، میرے والدین نے مجھے صحافت پڑھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ابا  (سید علی شاہ گیلانی )ہی تھے جنہوں نے آخر کار میرے والد( الطاف شاہ) کو راضی کیا کہ وہ مجھے اپنے شوق کی پیروی کرنے دیں۔  میں کئی گھنٹوں تک اس کے پاس بیٹھی رہی اور میں نے انہیں غور سے سنا جب وہ ٹکڑوں اور ٹکڑوں میں بولنے کی کوشش کر رہے تھے۔"آپ کے والد بہت چھوٹے اور توانا تھے جب میں نے انہیں پہلی بار دیکھا … وہ تیز تھے کیونکہ وہ پرانے شہر (سرینگر میں) سے تھے،" ۔حیدر پورہ میں گھر سے پہلے، ابا (سید علی شاہ گیلانی ) شمالی کشمیر کے ایک گاؤں سوپور کے ڈورو میں رہتے تھے۔ ابا  (سید علی شاہ گیلانی )نے ایک طویل توقف کے بعد کہا، "یہ آپ کے والد( الطاف شاہ)ہی تھے جنہوں نے مجھے سری نگر منتقل ہونے کے لیے کہا... وہ ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتے تھے۔" "جب تم اسے ( الطاف شاہ)دیکھو تو اسے میرا سلام دو... واپس جانے سے پہلے اسے دیکھ لو۔"میرے والد  ( الطاف شاہ)ابا (سید علی شاہ گیلانی )کے اکلوتے داماد ہیں، پانچ دیگر لوگوں کے درمیان، جو جدوجہد آزادی کا سرگرم حصہ ہیں۔ جیل سے مجھے لکھے گئے اپنے ایک خط میں، میرے والد ( الطاف شاہ)ے مجھے بتایا کہ کس طرح ابا کے کردار اور جدوجہد آزادی سے لگن نے انہیں اپنے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا۔

 الطاف احمد شاہ دوسرے رہنماؤں کے ساتھ 2017 سے نئی دہلی میں قید تھے۔ اس لیےپاکستان نے گزشتہ پانچ سال سے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نظر بند حریت رہنما الطاف احمد شاہ کی بگڑتی ہوئی صحت پر شدید تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں بھارتی ناظم الامور کو آج وزارت خارجہ طلب کیا تھا۔بھارتی ناظم الامور کو کہا گیا کہ گردے کے کینسر میں مبتلا جناب الطاف احمد شاہ کو مناسب طبی امداد فراہم کرنے میں بھارتی حکام کی ناکامی انتہائی مایوس کن ہے۔ اس لاپرواہی کے نتیجے میں شاہ صاحب کی حالت بگڑتی جا رہی ہے اور کینسر ان کے جسم کے دیگر حصوں میں پھیل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کشمیری حریت پسند رہنما الطاف شاہ بھارتی قید میں جاں بحق

گذشتہ تین برس کے دوران الطاف شاہ دوسرے ایسے علیحدگی پسند رہنما ہیں جن کی دوران حراست شدید بیماری کی حالت میں موت ہوئی ہے۔اُن کی بیٹی رُوا شاہ کئی ماہ تک انڈین حکومت سے اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو گھر میں نظربند کیا جائے تاکہ اُن کا بہتر علاج ہو سکے لیکن حکومت نے ان اپیلوں کو نظرانداز کیا۔الطاف شاہ کی وفات سے چند دن قبل ایک بین الاقوامی جریدےسے بات کرتے ہوئے رُوا شاہ نے بتایا تھا کہ ’ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب میں تہاڑ جیل جا رہی ہوں، قلم اور کاغذ کی اجازت کے لیے۔۔۔ ڈر یہ ہے کہ اتنی دیر میں وہ کہیں دم نہ توڑ جائیں، میں اپیلیں کر کر کے تھک گئی ہوں۔‘
اور پھر رُوا کا یہ خدشہ آخرِ کار درست ثابت ہو گیا۔وا سمیت دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد الطاف شاہ اُن درجنوں علیٰحدگی پسند رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں سنہ 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں انڈیا کی ’نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی‘ یعنی این آئی اے ’دہشت گردوں کی مالی معاونت‘ سے متعلق ایک الزام کے تحت عمل میں لائی تھی۔الطاف شاہ پر بھی دہشت گردوں کی مبینہ اعانت اور تشدد کی حمایت جیسے الزامات تھے۔

جیل حکام نے 65 سالہ الطاف شاہ کو نہایت علیل حالت میں دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا تھا رُوا کہتی ہیں کہ’’ جیل حکام نے اُن کے والد کی صحت کے بارے میں اُن کے خاندان کو تب تک کچھ نہیں بتایا جب تک کینسر اُن کے جسم میں مکمل طور پر پھیل نہیں گیا‘‘۔
رُوا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا میڈیکل انسٹیوٹ منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے لیکن منگل کو رام منوہر لوہیا ہسپتال میں ہی الطاف شاہ کی موت ہو گئی۔دو سال قبل ایک اور علیٰحدگی پسند رہنما اشرف صحرائی بھی دوران حراست ہی فوت ہوگئے تھے۔ ان کے اہل خانہ نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ انہیں مناسب علاج فراہم نہیں کیا گیا۔

الطاف شاہ سرینگر کے ایک معروف تاجر اور کشمیر کے مقبول علیٰحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کے داماد تھے۔ گیلانی نے 2007 میں اپنی تنظیم ''تحریکِ حریت کشمیر'' بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔‘واضح رہے تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام سمیت کئی کشمیری رہنماؤں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔

شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز انڈین حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اُن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے۔